سوال: مجھے کسی دوسرے شخص کے قدموں کو چھوتے ہوئے یا چومتے ہوئے بڑی تشویش ہوتی ہے، میں نے ایک تحریر میں پڑھا ہے کہ “طاہر القادری” نے کچھ احادیث سے ایسے دلائل جمع کیے ہیں جن سے دوسروں کے قدموں کو چھونا یا بوسہ دینا جائز ثابت ہوتا ہے، اور امام بخاری کا بھی اس بارے میں ایک نظریہ ہے، اور اس نے اس بات کے درست ہونے پر کتابیں بھی لکھی ہیں، طاہر القادری نے اپنے نظریے کو موضوع یا ضعیف احادیث سے مضبوط بنانے کی کوشش بھی کی ہے، تو طاہر القادری کے موقف کے مقابلے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے؟
والدین یا قدر ومنزلت میں انکے برابر لوگوں کے قدم چومنے کا حکم
سوال: 130154
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قدموں کو بوسہ دینے کیلئے مشہور ترین دلائل میں دو احادیث ، اور ایک واقعہ ہے،ایک حدیث میں دو یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا، اور دوسری حدیث میں عبد القیس کے وفد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم کو بوسہ دیا، جبکہ واقعہ میں امام مسلم نے امام بخاری رحمہما اللہ کے قدموں کو بوسہ [دینے کا عندیہ] دیا،اب ہم اسکی تفصیل بیان کرتے ہیں، اور یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ علماء کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔
پہلی حدیث:
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ایک یہودی نے اپنی دوست سے کہا: چلو اس نبی کے پاس چلتے ہیں، تو اسکے دوست نے کہا: اسے نبی مت کہو، اگر اس نے سن لیا تو وہ پھولے نا سمائے گا، چنانچہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دونوں نے آپ سے نو آیاتِ بینات کے متعلق سوال کر ڈالا، جواب میں آپ نے فرمایا: (اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، اسراف نہ کرو، زنا نہ کرو، اللہ کی طرف سے حرام کردہ کسی کو بنا حق قتل نہ کرو، کسی بے گناہ کو قتل کیلئے حاکم کے پاس نہ لے جاؤ، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، کسی پاکدامن عورت پر تہمت نہ لگاؤ، اور کفار سے مقابلے کے وقت پیٹھ پھیر کر مت بھاگو، اور یہودیو! خاص طور پر تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہفتہ کے روز ظلم و زیادتی نہ کرو)راوی کہتا ہے: دونوں نے آپ کے ہاتھ پاؤں چومے، اور کہنے لگے: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تو تمہیں میری اتباع کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟) انہوں نے کہا: داود علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ انکی نسل میں نبوت جاری رہے، اور ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر آپکی اتباع کی تو یہودی ہمیں قتل کردینگے۔
اسے ترمذی (2733) ، نسائی (4078) ، ابن ماجہ (3705) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے “ضعيف ترمذی” میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ، جبکہ متعدد علمائے کرام جیسے حافظ ابن حجر نے “التلخيص الحبير” (5/240) میں ، ابن ملقن نے “البدر المنير” (9/48) میں ، نووی نے “المجموع” (4/640) ، اور “رياض الصالحين” (حديث: 889) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں اشکال ہے، اور اسکا راوی عبد اللہ بن سلمہ کے حافظے کے بارے میں کہا گیا: ” في حفظه شيء ” اور اسکے بارے میں کلام بھی کی گئی ہے، لگتا ہے اُس نے “تسع آیات بینات”یعنی نو آیات بینات کو “عشر الکلمات”یعنی دس باتوں کیساتھ آپس میں خلط ملط کردیا ہے، کیونکہ یہ تورات میں مذکور وصیتیں ہیں، جنکا فرعون پر اتمام حجت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں”
“تفسير ابن كثير” (5/125)
زیلعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں دو اشکال ہیں:
پہلا یہ ہے کہ: یہودیوں نے نو کے بارے میں سوال کیا، اور حدیث میں دس کا ذکر ہے، لیکن یہ اشکال ابو نعیم اور طبرانی کی روایت پر وارد نہیں ہوتا؛ کیونکہ اِن دونوں محدثین نے “جادو” کا ذکر نہیں کیا، اسی طرح مسند احمد کی روایت پر بھی یہ اشکال نہیں آتا کہ اس میں ایک بار “تہمت لگانے” کا ذکر نہیں کیا گیا ، اور ایک بار کسی اور میں شک کا ذکر ہے، چنانچہ دیگر محدثین کی روایات میں موجود ایک جملے کا معنی باقی رہ جائے گا اور وہ ہے: (تم مجھ سے اپنے سوالوں کا جواب لےلو، مزید برآں میں تمہاری خصوصیات بیان کرونگا تا کہ تمہیں تمہاری کتاب کے متعلق میرے علم کا احساس ہو سکے)
دوسرا اشکال یہ ہے کہ:
1- یہ تورات میں مذکور وصیتیں ہیں، جن میں فرعون اور اسکی قوم کے خلاف دلائل نہیں پائے جاتے، تو ان وصیتوں اور فرعون پر اتمام حجت کے مابین کونسی مناسبت ہے؟! حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ عبد اللہ بن سلمہ ہے؛ کیونکہ محدثین کے ہاں اسکا درجہ: “إن في حفظه شيئًا ، وتكلموا فيه ، وأن له مناكير”ہے یعنی اسکا حافظہ درست نہیں، اس پر کلام کی گئی ہے، اور منکر روایات بیان کرتا ہے، چنانچہ ہوسکتا ہے یہودیوں نے دس کلمات کے بارے میں پوچھا ہو، اور اسکو نو آیات کا شبہ لگ گیا ہو، اور بیان کرتے وقت دس کلمات کی بجائے نو آیات کہہ دی ہو، واللہ اعلم”
“تخريج الكشاف” (2/293)
مذکورہ بالا حدیث کے باب کو امام ترمذی نے عنوان دیا: “باب ہے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینے کے بارے میں”
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابہری نے کہا: امام مالک نے اس وجہ سے مکروہ کہا ہے کہ جب تکبر کی بنا پر ہو، اور اسکی [جسکے ہاتھ پر بوسہ لیا جا رہا ہے]تعظیم مقصود ہو، چنانچہ اگر کوئی انسان کسی مقرب الہی ، دیندار، عالم اور صاحبِ شرف انسان کا ہاتھ یا چہرہ ، یا بدن [ماسوائے عورہ یعنی شرمگاہ وغیرہ]کے کسی بھی حصہ کا بوسہ لے، تو یہ جائز ہے”
“شرح صحيح البخارى” (9/46)
اس حدیث کے بارے میں مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ حدیث ہاتھ پاؤں پر بوسہ لینے کے جواز پر دلالت کرتی ہے”
“تحفة الأحوذي” (7/437)
اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
“خلاصہ کلام یہ ہے کہ: ان دونوں لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کو برقرار رکھا، لہذا اس واقعہ میں صاحب شرف و منزلت اور علمی شخصیات کے ہاتھ اور پاؤں پر بوسہ دینے کا جواز ملتا ہے،اسی طرح ماں باپ وغیرہ کے ہاتھ پاؤں چومنے کا بھی جواز ملتا ہے کیونکہ ادب و احترام انکا حق ہے، اور یہ تواضع کی ایک صورت ہے”
“شرح رياض الصالحين” (4/451)
شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
“میرے والد صاحب کبھی کبھی مذاق کرتے ہوئے اپنے قدم چومنے کا حکم کرتے ہیں؟”
تو انہوں نے جواب دیا: “اس میں کوئی مانع نہیں، تم چوم سکتے ہو”
“شرح سنن أبو داود” (29/342)
دوسری حدیث:
ام ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع – جو کہ وفد عبد القیس میں شامل تھا -سے بیان کرتی ہیں وہ کہتے ہیں: جب ہم مدینہ آئے تو ہم اپنی سواریوں سے اتر کر جلدی جلدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے اور آپکے ہاتھ و پاؤں پر بوسہ دیا۔
اسے ابو داود (5227) نے روایت کیا ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسکی سند کو”فتح الباری” (11/57) میں جید کہا ہے، جبکہ البانی نے “صحيح أبو داود” میں حسن قرار دیا ہے، اور مزید وضاحت کی کہ “حسنٌ ، دون ذِكر الرِّجْلين” حسن روایت میں قدموں کا ذکر نہیں ہے۔
اس حدیث پر ابو دادو رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا: “باب ہے قدم پر بوسہ کے بارے میں”
جبکہ واقعہ امام بخاری اور مسلم کے درمیان بات چیت پر مشتمل ہے، اور یہ بہت مشہور ہوچکا ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری کے قدموں کو بوسہ دیا، اور امام بخاری کے علم کا اعتراف کرتے ہوئےتعریفی کلمات بھی کہے۔
جبکہ صحیح یہ ہے کہ واقعہ میں امام مسلم نے امام بخاری کی پیشانی پر بوسہ دیا، اور پھر امام مسلم نے امام بخاری سے قدم چومنے کی اجازت چاہی ، جبکہ واقعہ میں ایسی کوئی بات نہیں کہ امام مسلم نے قدموں کو چوما ہو۔
چنانچہ “تاريخ بغداد” (13/102) میں احمد بن حمدون القصار کہتے ہیں کہ میں نے مسلم بن حجاج کو محمد بن اسماعیل بخاری کی پیشانی پر بوسہ لیکر کہتے ہوئے سنا: وہ کہہ رہتے تھے: “یا استاذ الاساتذہ! سید المحدثین! اور علل الحدیث [علم حدیث کے ایک فن کا نام ]کے طبیب! مجھے اجازت دو کہ آپکے قدم بھی چوم لوں”
جبکہ “تاريخ دمشق” (52/68) میں ہے کہ:
“انہوں نے پیشانی پر بوسہ دیا، اور کہا: “یا استاذ الاساتذہ! سید المحدثین! اور حدیث کے طبیب! مجھے اجازت دو کہ آپکے قدم بھی چوم لوں” انتہی
فائدہ:
حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس قصہ کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ انہی کے شاگر حافظ ابن حجر نے انکا رد کرتے ہوئے کہا: کہ یہ قصہ ثابت اور صحیح ہے۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“غالب گمان یہی ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے، اور میں اس قصہ کے بارے میں احمد بن حمدون القصار کو متہم ٹھہراتا ہوں ، جس نے امام مسلم کا یہ واقعہ بیان کیا ہے؛ اسکے بارے میں محدثین کے ہاں درجہ”فقد تُكلم فيه” ہے یعنی اسکے بارے میں جرح کی گئی ہے”
ماخوذ از: “التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح” (ص 118)
اور حافظ ابن حجر نے عراقی کا رد کرتے ہوئے کہا:
“یہ واقعہ درست ہے، اسے حاکم کے علاوہ دیگر نے صحت کی بنا پر روایت کیا ہے، اور اس پر کوئی قدغن بھی نہیں لگائی، اسی طرح بیہقی نے بھی حاکم سے صحیح طور پر نقل کیا ہے، جیسے کہ ہم اسکی وضاحت کرینگے؛ اس قصہ میں امام بخاری کی طرف منسوب منکر بات یہ ہے کہ امام بخاری نے کہا:”میں دنیا میں اس مسئلہ [کفارہ مجلس کی دعا]کے بارے میں ایک ہی حدیث جانتا ہوں جو کہ کمزور ہے”جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ اس مسئلہ [کفارہ مجلس کی دعا]میں متعدد احادیث ہیں جو بخاری جیسے محدث سے مخفی نہیں رہ سکتیں۔
پھر کہا: اور صحیح بات بھی یہی ہے کہ بخاری نے ان الفاظ کے ساتھ تعبیر نہیں کی، میں یہ سمجھتا ہوں کہ حاکم کی ذکر کردہ سند کے ساتھ الفاظ بیان کروں جنہیں شیخ [عراقی] نے ضعیف قرار دیا ہے، اور پھر انہی الفاظ کو ایک اور صحیح سند سے بیان کروں جس پر کوئی قدغن اور نکارت نہیں ہے، اس کے بعد حدیث کی حالت واضح کرونگا، اور انکا بھی ذکر کرونگا جنہوں نے اس میں علتیں بیان کی یا صحیح قرار دیا تا کہ اچھی طرح فائدہ ہو۔۔۔ ۔
“النكت على كتاب ابن الصلاح” (2/715 ، 716)
دوم:
اگر ہم قدموں کو بوسہ دینے کے بارے میں جواز کے قائل ہوتے ہیں تو اسکے قواعد وضوابط ہونے چاہئیں، جن میں کچھ درج ذیل ہیں:
1- یہ صرف والدین اور اہل علم کیلئے ہونا چاہئے۔
اور گذشتہ سطور میں شیخ عثیمین اور العباد کی گفتگو اس کی تائید کرتی ہے۔
2- قدموں کا بوسہ [انکے احترام کے ذریعے]اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہو، دنیاوی مقاصد یا اپنے آپ کو ذلیل کرنے کیلئے نہ ہو۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کسی کے ہاتھ کو مالداری، دنیاداری، اور شان وشوکت کی وجہ سے چومنا بہت سخت مکروہ ہے، جبکہ متولی نے: “یہ جائز ہی نہیں” کہہ کر اسکے حرام ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔
“المجموع شرح المهذب” (4/636)
اور ایک جگہ کہا:
“سر یا پاؤں کے بوسہ کا حکم ہاتھ کے بوسہ کی طرح ہے”
“المجموع شرح المهذب” (4/636 ، 637)
3- جو شخص خود سے یہ چاہتا ہوکہ اسکےاعضاء کو بوسہ دیا جائے، تو ایسے شخص کو بوسہ نہیں دینا چاہئے، بلکہ جو اپنے ہاتھ کے بارے میں یہ چاہے کہ لوگ بوسہ لیں، تو اسکے ہاتھ کو بوسہ نہیں دینا چاہئے، اور قدموں کو تو پھر بالاولی جائز نہیں ہوگا۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو شخص لوگوں سے ہاتھ پر بوسے دلوانے کیلئے خود ہی اپنا ہاتھ لوگوں کی طرف ہاتھ بڑھائے ، تو بوسہ دینے سے بلا اختلاف روک دیا جائےگا، چاہے کوئی بھی ہو، لیکن اگر بوسہ لینے والا خود ہی بوسہ لیتا ہے، تو اسکا حکم کچھ اور ہے”
“المستدرك على مجموع الفتاوى” (1/29)
شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بعض لوگوں کی کچھ عادات قابل گرفت ہیں، کہ جب کوئی انہیں سلام کہتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھا دیتا ہے، جیسے کہ وہ زبان حال سے کہہ رہا ہو: “میرے ہاتھ کو بوسہ دو!”یہ قابل گرفت بات ہے، ایسی حالت میں کہا جائے گاکہ: بوسہ نہیں دینا”
“شرح رياض الصالحين” (4/452)
4- کوئی ایسی وجوہات پائی جائیں جنکا تقاضا ہو کہ بوسہ دیا جائے، یا کبھی کبھار دیا جائے، ہر بار ملنے پر نہ دیا جائے۔
شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو شخص آپکے ہاتھ، یا سر،یا پیشانی کو بوسہ تکریم و عزت افزائی کیلئے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ ہر ملاقات میں نہیں ہونا چاہئے؛ کیونکہ پہلے یہ گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو کیا اسکے سامنے جھکے؟ تو آپ نے فرمایا: (نہیں) پھر پوچھا کہ کیا اسکا بوسہ لے اور گلے ملے؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) پھر پوچھا : کہ کیا مصافحہ کرے؟ تو آپ نے فرمایا: (ہاں)
لیکن اگر کسی سبب کی بنا پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسے مسافر ۔۔۔”ا نتہی
“شرح رياض الصالحين” (4/452)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (20243)
سوم:
طاہر القادری کے بارے میں ابھی ہمارے پاس کوئی خاص معلومات نہیں ہیں، لیکن بہر حال جو شخص بھی ضعیف احادیث سے استدلال کرے تو اسکا یہ استدلال قبول نہیں کیا جائے گا، اور اللہ تعالی نے ہمیں صحیح احادیث کی موجودگی میں ضعیف روایات کا محتاج نہیں بنایا۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب