میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مارکیٹ میں کسی بھی چیز کی فراوانی کے وقت اسے خرید لیتے ہیں اور پھر اسے اپنے پاس محفوظ کر کے قیمت زیادہ ہونے پر فروخت کرتے ہیں، اور جس قیمت میں چاہتے ہیں فروخت کرتے ہیں، ایسی صورت میں اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے، اور شریعت ان لوگوں کی ایسی کمائی کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
ایک دکاندار مارکیٹ میں مال کی فراوانی پر خرید لیتا ہے اور قیمت بڑھنے پر فروخت کرتا ہے، تو کیا یہ ممنوعہ ذخیرہ اندوزی ہے؟
سوال: 130313
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
"ممنوعہ ذخیرہ اندوزی میں وہ شخص آتا ہے جو لوگوں کی ضرورت کے وقت سامان خرید کر ذخیرہ کرے، اس عمل کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے لعنت اور وعید ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ممنوعہ ذخیرہ اندوزی غلط شخص ہی کرتا ہے) اور ایک روایت میں ہے کہ: (جو شخص ممنوعہ ذخیرہ اندوزی کرے تو وہ خطا کار ہے۔) یعنی وہ گناہ گار ہے۔
اہل علم کہتے ہیں: اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو لوگوں کی ضروریات زندگی کی چیزیں ایسے وقت میں خرید کر محفوظ کر لیتے ہیں جب لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اسے مہنگی قیمت میں فروخت کرتے ہیں، یہ جائز نہیں ہے، یہ گناہ کا کام ہے، ایسا شخص گناہ گار ہے، اگر علاقے میں صاحب اختیار حکمران ہو تو وہ اس کام سے روکے، اور اسے مارکیٹ ریٹ کے مطابق فروخت کرنے پر مجبور کرے، اور اسے ذخیرہ اندوزی نہ کرنے دے۔ یہ اس وقت ہے جب اس چیز کی مارکیٹ میں قلت ہو اور لوگوں کو ضرورت ہو۔
لیکن ایک شخص اناج وغیرہ لوگوں کی ضروریات زندگی کی چیزیں مارکیٹ میں فراخی اور فراوانی کے وقت میں خرید لے اور اس کے خریدنے سے کسی کو نقصان بھی نہ ہو، پھر جب وہ چیز مارکیٹ میں چل پڑے تو بلا تاخیر اور قلت کا انتظار کیے بغیر دیگر تاجروں کے ہمراہ فروخت کر دے، بلکہ اگر اسے فائدہ ملتا نظر بھی آ رہا ہو تو فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ کام تاجر برادری قدیم عرصے سے کرتی چلی آ رہی ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم
سماحۃ الشیخ عبد العزيز بن باز رحمہ الله
"فتاوى نور على الدرب" (3/1442) .
ماخذ:
فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب