كيا مطلقہ عورت دوران عدت دروس اور تقارير اور سير و تفريح كے ليے گھر سے باہر نكل سكتى ہے، كيونكہ وہ غريب الدار ہے اور اس كے خاندان كا كوئى شخص نہيں جو اس كى معاونت كر سكتا ہو، اور كيا بچوں كو عربى زبان كى تعليم دينے كے ليے نكل سكتى ہے برائے مہربانى تفصيلى جواب ديں كيونكہ اكيلے گھر ميں رہنا بہت مشكل ہے ؟
دوران عدت مطلقہ عورت كا ضرورى كام كے ليے گھر سے باہر جانا
سوال: 130775
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طلاق رجعى والى عورت كو خاوند كے گھر عدت گزارنا واجب ہے؛ اور خاوند كے ليے اسے اپنے گھر سے نكالنا جائز نہيں؛ صرف اسى صورت ميں وہ اسے اپنے گھر سے نكال سكتا ہے جب وہ عورت كوئى واضح فحش كام كى مرتكب ہوئى ہو، اور اگر خاوند اسے نكالتا بھى ہے تو بيوى كے ليے وہاں سے نكلنا حلال نہيں.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے ليے طلاق دو اور عدت كو شمار كرو، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو جو تمہارا پروردگار ہے، انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں مگر يہ كہ وہ واضح طور پر كوئى فحاشى كا كام كريں الطلاق ( 1 ).
ليكن طلاق بائن يعنى جسے تين طلاقيں ہو چكى ہوں تو ايسى عورت اپنے ميكے ميں عدت گزار سكتى ہے، اور سے يہ بھى حق ہے كہ اگر وہاں دونوں ميں خلوت نہ ہو تو خاوند كے گھر ميں بھى عدت گزار سكتى ہے.
دوم:
طلاق يافتہ عورت كا دوران عدت گھر سے نہ نكلنے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
جمہور علماء كرام كے ہاں تو وہ بيوہ كى عدت كى طرح ہى ہے وہ صرف رات كے وقت ضرورت كے باعث گھر سے نكل سكتى ہے، اور دن كے وقت حاجت كے باعث جا سكتى ہے.
ليكن دوسرے فقھاء كا كہنا ہے كہ طلاق يافتہ عورت كے ليے ايسا لازم نہيں، بلكہ اسے وہ دوسرى بيويوں كى طرح باہر جا سكتى ہے.
شرح منتہى الارادات ميں درج ہے:
” اور رجعى طلاق والى عورت دوران عدت طلاق دينے والے خاوند كے گھر ميں رہنے ميں بيوہ كى عدت كى طرح ہى ہے ـ ليكن عدت ميں اس بيوہ كى عدت جيسى نہيں ـ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
تم انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں .
چاہے طلاق دينے والا خاوند اسے وہاں سے نكل جانے كى اجازت دے بھى دے، يا اجازت نہ دے تو بھى وہ وہاں سے نہيں نكل سكتى؛ كيونكہ يہ عدت كے حقوق ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا حق ہے، اس ليے خاوند كو عورت كے حق كو ساقط كرنے كا كوئى حق نہيں؛ اسى طرح بيوى كى عدت كو بھى ساقط نہيں كر سكتا ” انتہى
ديكھيں: شرح منتہى الارادات ( 3 / 206 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ فتح القدير ( 4 / 343 ) اور مواھب الجليل ( 4 / 164 ) اور مغنى المحتاج ( 5 / 106 ) كا مطالعہ كريں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور يہ دوسرى بيويوں سے كئى ايك مسائل ميں فرق ركھتى ہے، جن ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ مسكن كو لازم پكڑے گى اور وہ بيوہ كى طرح گھر ميں ہى رہےگى دن اور رات كے وقت بغير كسى ضرورت اور حاجت كے باہر نہيں جائيگى، ليكن دوسرے كى بيويوں كے ليے گھر ميں ہى رہنا لازم نہيں، لہذا وہ اپنے قريبى رشتہ داروں كو ملنے اور كسى سہيلى كو ملنے جا سكتى ہے.
اس طرح گھر ميں رہنے كے مسئلہ ميں يہ عام بيويوں سے زائد شديد ہوگى، ليكن عرف اور عادت يہى ہے كہ جب طلاق ہو جاتى ہے تو عورت اپنے ميكے چلى جاتى ہے، ليكن ايسا حرام ہے جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو اور نہ ہى وہ خود نكليں، مگر يہ كہ وہ كوئى واضح فحش كام كريں الطلاق ( 1 ).
لہذا وہ عدت ختم ہونے تك باہر نہ نكلے، مذہب يہى ہے كہ اگر خاوند اجازت بھى دے تو بھى نہيں.
دوسرا قول يہ ہے كہ:
” اس كے ليے اپنا مسكن لازم نہيں؛ يعنى وہ دوسرى بيويوں كى طرح ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے بعل يعنى خاوند كا نام ديا ہے، تو اس ليے وہ اس كى بيوى ٹھرى اور جب تك وہ بيوى ہے تو وہ بھى دوسرى بيويوں كى طرح ہو گى دن اور رات كے وقت گھر سے نكل سكتى ہے اس كے ليے گھر ميں ہى رہنا لازم نہيں.
اور فرمان بارى تعالى ” اور وہ خود بھى نہ نكليں ” سے جو علماء نے استدلال كيا ہے اس سے مراد خروج مفارقت ہے اور كسى سبب كے باعث نكلنا مراد نہيں، اور صحيح قول بھى يہى ہے ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 187 ).
جمہور فقھاء كرام كى دليل مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
” ميرى خالہ كو طلاق ہو گئى تو وہ اپنى كھجوريں توڑنے گئيں تو ايك شخص نے انہيں ڈانٹا كہ وہ دوران عدت باہر كيوں كو نكلى ہے، چنانچہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائيں اور يہ قصہ بيان كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيوں نہيں تم اپنى كھجوريں جا كر توڑوں اور ان كى ديكھ بھال كرو، ہو سكتا ہے تم اس سے صدقہ كرو يا كوئى اور نيكى كرو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1483 ).
سبل السلام ميں اس كى شرح كرتے ہوئے لكھا گيا ہے:
” يہ حديث طلاق بائن والى عورت كے ليے دوران عدت دن كے وقت ضرورت و حاجت كى خاطر گھر سے باہر نكلنے كى دليل ہے، ليكن بغير ضرورت و حاجت گھر سے نكلنا جائز نہيں.
كچھ علماء كرام كا كہنا ہے كہ دن اور رات كے وقت عذر اور حاجت كى خاطر نكلنا جائز ہے؛ مثلا گھر منہدم ہونے كا خدشہ ہو تو، اور اسى طرح پڑوسى اذيت و تكليف ديتے ہوں تو وہ گھر سے نكل سكتى ہے، يا پھر اس سے شديد اذيت ہوتى ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم انہيں ان كے گھر سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں، الا يہ كہ وہ كوئى واضح فحش كام كريں .
اس فحش كام كى تفسير يہ كى گئى ہے كہ وہ خاوند كے رشتہ داروں كے خلاف بدزبان اور فحش زبان استعمال كرتى ہو.
اور بيوہ كى عدت پر قياس كرتے ہوئے ايك گروہ كى رائے ہے كہ مطلقا دن كے وقت نكلنا جائز ہے، رات كو نہيں نكل سكتى، يہ كسى پر مخفى نہيں كہ مذكورہ حديث ميں گھر سے باہر نكلنے كى جو علت بيان ہوئى ہے وہ ان كے صدقہ كرنے يا كوئى اور نيكى كا كام كرنے كى اميد ہے، اور گھر سے باہر نكلنے كا يہ عذر بيان ہوا ہے، ليكن عذر كے بغير نكلنے كى كوئى دليل نہيں ” انتہى
ديكھيں: سبل السلام ( 2 / 296 ).
حاصل يہ ہوا كہ: آپ كے ليے ضرورت و حاجت كى خاطر دن كے وقت نكلنا جائز ہے؛ مثلا ضرورت كى اشياء اور سامان كى خريدارى يا تعليم وغيرہ دينے كے ليے يا ملازمت كے جانا اور ضرورى قسم كے دروس ميں حاضر ہونا جائز ہے؛ ليكن سير و تفريح كے ليے باہر جانا جائز نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب