کیا حسد کے خدشے کے وقت "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " کہنا جائز ہے؟
نظر بد سے بچانے کے لیے “اللہ برکت دے” کہنا شرعاً جائز ہے۔
سوال: 130786
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب کوئی اچھی چیز نظر آئے اور اس کے بارے میں نظر بد کا خدشہ ہو تو صحیح ثابت شدہ سنت یہ ہے کہ انسان برکت کی دعا دے۔
جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب کوئی انسان اپنے آپ میں یا مال میں یا اپنے بھائی میں کوئی اچھی چیز دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کر دے؛ کیونکہ نظر بد با اثر ہوتی ہے۔)
اس روایت کو ابن سنی رحمہ اللہ نے " عمل اليوم والليلة " کے صفحہ: 168 اور امام حاکم رحمہ اللہ نے : 4 / 216 نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "الكلم الطيب " : صفحہ: 243 میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف کہتے ہیں: ایک بار سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سیدنا سہل بن حنیف کے پاس سے گزرے ، اس وقت سہل غسل کر رہے تھے، اس پر عامر نے کہا: "آج سے پہلے میں نے اتنی صاف رنگت والی جلد کبھی نہیں دیکھی" یہ کہنا ہی تھا کہ سہل فوری طور پر زمین پر گر گئے، پھر آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لایا گیا اور بتلایا گیا کہ: سہل بیہوش ہو کر گر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: تمہیں کس کی نظر پر شک ہے؟ انہوں نے کہا: عامر بن ربیعہ پر۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے بھائی کو [نظر بد کے ذریعے] کیوں مارتے ہو؟! جب تمہیں اپنے بھائی میں کوئی اچھی چیز نظر آئے تو اس کے لیے برکت کی دعا کر دے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا اور عامر بن ربیعہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کرے اور اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ کہنیوں تک، پاؤں گھٹنوں تک اور تہہ بند کے اندرونی حصے کو دھو کر وضو والا پانی دے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اس پانی کو سہل پر ڈال دیا جائے۔) اس حدیث کو ابن ماجہ: (3509) امام احمد: (15550) اور امام مالک: (1747) نے بیان کیا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب آپ کو کوئی چیز اچھی لگے اور نظر لگنے کا خدشہ ہو تو "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " کہہ دے، تو اس بارے میں ابو یعلی رحمہ اللہ اپنی مسند میں ایک روایت ذکر کرتے ہیں جیسے کہ المطالب العالية (10/348) ، وتفسير ابن كثير(5/158) میں ہے کہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اپنے بندے کو اہل و عیال، اور مال کی شکل میں کوئی بھی نعمت عطا کرے اور بندہ "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " کہہ دے تو اسے اس نعمت میں موت کے علاوہ کوئی آفت نظر نہیں آئے گی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ قرآن کریم کی آیت: وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ترجمہ: اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو توں نے "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " کیوں نہیں کہا؟ [الکہف: 39] کی عملی تفسیر بیان کرتے ہوئے بتلائے ہیں۔
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، اس حدیث کا مدار عبد الملک بن زراہ پر ہے جو کہ محدثین کے ہاں "ضعیف الحدیث" ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ امام بیہقی کی کتاب: "الأسماء والصفات " کے صفحہ: (1/417) پر کتاب کے محقق عبد اللہ حاشدی کا حاشیہ ملاحظہ کریں۔
جبکہ کچھ اہل علم اس ذکر کے شرعی ہونے کے قائل بھی ہیں، چنانچہ ان علمائے کرام ہاں جب کسی انسان کو کوئی اچھی چیز نظر آئے اور اس کے تلف ہونے یا نظر بد لگنے کا خدشہ ہو ، یا اس چیز کے مالک کے تکبر یا خود پسندی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو وہ مذکورہ آیت کی تعمیل میں یہ الفاظ کہے، جیسے کہ سابقہ حدیث میں ذکر ہو چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس آیت کی تعمیل میں یہ الفاظ پڑھے ہیں۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب انسان کو کوئی اچھی چیز نظر آئے اور اس کے متعلق نظر بد کا خدشہ ہو تو وہ "ما شاء اللہ تبارک اللہ" کہہ دے، تا کہ اس چیز کو نظر نہ لگے، اسی طرح جب انسان کو اپنے مال میں اچھی چیز نظر آئے تو تب کہے: "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " تا کہ انسان اپنے بڑھتے ہوئے مال کو دیکھ کر خود پسندی اور تکبر میں مبتلا نہ ہو، یہ الفاظ کہنے سے انسان اپنے معاملات اسی ذات کے سپرد کر دیتا ہے جس کے پاس ان تمام معاملات کی باگ ڈور ہے۔ "
ماخوذ از : فتاوی نور علی الدرب
ایک اور مقام پر آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب کسی کو خدشہ ہو کہ اس کی نظر دل کو بھانے والی چیز کو لگ جائے گی تو وہ کہہ دے: اللہ تعالی اس چیز میں برکت فرما ئے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نظر لگانے والے شخص کو فرمایا تھا: (تم نے اسے برکت کی دعا کیوں نہیں دی؟) تاہم "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " کے الفاظ وہ شخص کہے گا جسے اپنی ذاتی دولت اچھی لگے، جیسے کہ باغ کے مالک کو نیک شخص نے کہا تھا: وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ترجمہ: اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو توں نے "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " کیوں نہیں کہا؟ [الکہف: 39] اور ایک اثر میں یہ بھی ہے کہ: (جس شخص کو اپنے مال میں کوئی اچھی چیز نظر آئے تو وہ کہہ دے: "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " تو اس کے مال میں کوئی منفی چیز نظر نہیں آئے گی) اب چاہے کوئی "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " کے الفاظ کہے یا اسی طرح کے کوئی اور الفاظ کہہ دے۔" ختم شد
" لقاء الباب المفتوح (235/19)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (1/547) میں ہے:
"عربی زبان میں کسی کو نظر لگانے کے لیے "عان یعین" استعمال ہوتا ہے، اور نظر کا لگنا حقیقت ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نظر لگنا حقیقت ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جا سکتی ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی۔ چنانچہ جب [نظر بد کے علاج کے طور پر ]تم سے غسل کا پانی مانگا جائے تو اپنے غسل کا پانی دے دو) نظر لگانے کا حکم یہ ہے کہ یہ بھی جادو کرنے کی طرح حرام ہے، جبکہ نظر بد کا علاج یہ ہے کہ سب سے پہلے جب کوئی دل کو بھانے والی چیز نظر آئے تو اللہ کو یاد کرے اور برکت کی دعا کرے، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: (تم نے دل کو بھانے والی چیز دیکھی تو برکت کی دعا کیوں نہیں کی؟) اس لیے انسان "ما شاء اللہ ، لا قوۃ الا باللہ " بھی کہہ سکتا ہے اور متعلقہ شخص کے لیے برکت کی دعا بھی کر سکتا ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے آپ فتاوی دائمی کمیٹی: (1/109) کا بھی مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب