مسلمان پر کسی غیر مسلم شخص کے متعلق کیا واجب ہے؟ مثلاً: غیر مسلم شخص مسلمانوں کے ملک میں بطور ذمی رہتا ہو، یا غیر مسلم کے ملک میں مسلمان شخص رہائش پذیر ہو۔ مجھے سلام کرنے سے لے کر غیر مسلم کے تہواروں میں شرکت کرنے تک ہر قسم کے معاملات میں مسلمان کے ذمے غیر مسلم کے واجبات کی وضاحت چاہیے، اور کیا ہم اسے ملازمت میں اپنا دوست بنا سکتے ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔
مسلمان پر غیر مسلم کے متعلق واجبات
سوال: 131777
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
"غیر مسلم شخص کے متعلق مسلمان شخص پر متعدد واجبات لازم ہوتے ہیں:
پہلا واجب: اللہ تعالی کی طرف دعوت: اگر مسلمان کے پاس علم و بصیرت ہو تو اسے اللہ کی طرف دعوت دے، جہاں تک ممکن ہو سکے اسلام کی حقانیت واضح کرے؛ کیونکہ یہ مسلمان کی طرف سے کسی یہودی، عیسائی یا کسی بھی غیر مذہب والے شہری کے ساتھ سب سے بڑی نیکی اور سب سے بڑا احسان ہو گا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص کسی خیر کی طرف رہنمائی کرے تو رہنما کے لیے عمل کرنے والے کے برابر اجر ہو گا۔) ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے انہیں خیبر ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہودیوں کو پہلے اسلام کی دعوت دیں، اور فرمایا: (اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی تمہارے ذریعے کسی ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص اچھے راستے کی دعوت دے تو داعی کو پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا، اور اس سے کسی کا بھی اجر کم نہیں ہو گا۔)
تو مسلمان غیر مسلم کو اللہ تعالی کی جانب دعوت دے، اسلام کی تبلیغ کرے اور غیر مسلم کی خیر خواہی چاہے تو یہ اہم ترین ذمہ داری اور افضل ترین عبادت ہے۔
دوسرا واجب: اگر کوئی غیر مسلم شخص ذمی ہو، یا اس نے پناہ لی ہوئی ہو، یا ان سے معاہدہ لیا گیا ہوا ہو تو مسلمان اس پر جانی اور مالی ظلم نہ کرے اور نہ ہی اس کی عزت پر حملہ کرے، بلکہ غیر مسلم کو اس کے سارے حقوق ادا کیے جائیں گے، چنانچہ غیر مسلم کو چوری ، خیانت اور دھوکا دہی کے ذریعے مالی ظلم کا نشانہ نہ بنائے۔ مار پیٹ اور قتل وغیرہ کے ذریعے جانی ظلم کا نشانہ نہ بنائے؛ کیونکہ یہ غیر مسلم چونکہ ذمی یا پناہ گزین، یا معاہد ہے اس لیے اسے مکمل تحفظ حاصل ہے۔
تیسرا واجب: ایسے غیر مسلم کے ساتھ خرید و فروخت اور کرایہ داری کا معاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بت پرستوں سے خریداری کی، یہودیوں سے بھی خریداری کی تھی، بلکہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی تو آپ کی ذرہ ایک یہودی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل خانہ کے راشن کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی ۔
چوتھا واجب سلام کے متعلق ہے، چنانچہ سلام کرتے ہوئے ابتدا نہ کرے، اور اگر وہ سلام کرے تو اس کا جواب دے دے، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یہودی اور عیسائی لوگوں سے سلام میں پہل نہ کرو) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تمہیں اہل کتاب سلام کہیں تو کہہ دو: وعلیکم) اس لیے مسلمان کو کافر سے سلام کرنے میں پہل نہیں کرنی چاہیے، تاہم اگر یہودی یا عیسائی یا کوئی اور غیر مذہب آپ کو سلام کرے تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے مطابق "وعلیکم" کہہ دیں۔
یہ مسلمان اور کافر کے درمیان حقوق سے متعلق امور ہیں۔
انہی حقوق میں پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک بھی شامل ہے، چنانچہ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی غیر مسلم رہائش پذیر ہے تو آپ اسے پڑوسی ہونے کی وجہ سے تکلیف مت دیں، بلکہ اگر غیر مسلم شخص غریب ہے تو اسے صدقہ دے، تحائف دے اور اسے مفید مشورے دے اور نصیحت بھی کرے؛ کیونکہ اس طرح وہ شخص اسلام میں رغبت رکھنے لگے گا اور ممکن ہے کہ وہ مسلمان بھی ہو جائے۔
ویسے بھی پڑوسی ہونے کی وجہ سے اسے پڑوسی کے حقوق حاصل ہوں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جبریل مجھے پڑوسی کے بارے میں تاکیدی نصیحت کرتا رہا حتی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو وارث بھی بنا دے گا۔) یہ حدیث متفقہ طور پر صحیح ہے، چنانچہ اگر پڑوسی غیر مسلم ہے تو تب بھی اسے پڑوس کا حق حاصل ہے، اور اگر وہ پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ رشتہ دار بھی ہو تو اس کے لیے دہرا حق ہے، پڑوس کا بھی اور رشتہ داری کا بھی۔
اگر غیر مسلم پڑوسی غریب ہے تو اسے زکاۃ سے ہٹ کر مالی صدقہ بھی دے دیا کرے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
ترجمہ: جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالی تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ [الممتحنہ: 8]
صحیح حدیث میں ہے کہ سیدہ اسما بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کی والدہ ان کے پاس صلح حدیبیہ کے دورانیے میں مالی تعاون کے لیے آئیں وہ اس وقت مشرک تھیں، تو سیدہ اسما بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا تعاون کرنے کے لیے اجازت چاہی کہ کیا وہ اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کریں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو)
البتہ ان کے تہواروں میں شرکت کے متعلق یہ ہے کہ ان میں شرکت نہ کرے، تاہم اگر غیر مسلم کا کوئی رشتہ دار فوت ہو جائے تو تعزیت کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ: اللہ تعالی آپ کو اس مصیبت میں صبر عنایت کرے، یا کہہ دے کہ: آپ کو بہترین صلہ دے۔ یا کوئی اور اچھا جملہ کہہ دے، تاہم میت اگر کافر ہے تو میت کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا نہ کرے، زندہ کے لیے ہدایت، اور بہترین صلے وغیرہ کی دعا کر سکتا ہے۔" ختم شد
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ
فتاوى نور على الدرب" (1/289 – 291)
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب