كچھ لوگ اكٹھے ہو كر سورۃ يس كى اجتماعى تلاوت كرتے ہيں اور ان ميں سے ايك شخص ہاتھ اٹھا كر دعا كرتا اور باقى اس كى دعا پر آمين كہتے ہيں، يہ قرآت معين تعداد ميں ہوتى ہے كيا قرآن و سنت ميں اس كى تائيد ميں كوئى دليل ملتى ہے ؟
سورۃ يس كى متعدد بار اجتماعى قرآت اور دعا كرنا
سوال: 132095
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كو جمع كر كے قرآن مجيد كى تلاوت فرماتے اور انہيں نصيحت فرماتے اور انہيں تعليم ديتے اور خير و بھلائى كى جانب ان كى راہنمائى فرمايا كرتے تھے، اور بعض اوقات جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرآن مجيد كى تلاوت كرتے ہوئے سجدہ كى آيات پڑھتے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى سجدہ كرتے اور صحابہ كرام بھى آپ كے ساتھ سجدہ كرتے تھے.
اور بسا اوقات رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كسى صحابى كو قرآن مجيد كى تلاوت كا كہتے اور خود اس كى تلاوت سماعت كرتے جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث سے ثابت ہوتا ہے:
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ايك دن فرمايا:
” اے عبد اللہ مجھے قرآن مجيد پڑھ كر سناؤ ”
انہوں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ پر كيسے پڑھوں حالانكہ آپ پر تو قرآن مجيد نازل كيا گيا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں پسند كرتا ہوں كہ اپنے علاوہ كسى دوسرے سے سنوں ”
عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
چنانچہ ميں نے آپ كے سامنے سورۃ النساء كى تلاوت كى اور جب اس آيت:
( فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ) النساء ( 41 ) پر پہنچا تو ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف نظر دوڑائى تو آپ كى آنكھوں نے آنسو بہہ رہے تھے.
يعنى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قيامت كے اس ہولناك منظر اور موقف كى بنا پر رونے لگے.
چنانچہ جب كچھ بھائى كسى مجلس يا جگہ جمع ہوں اور وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ تلاوت كريں اور اس پر غور و فكر اور تدبر كريں اور ايك دوسرے كو سمجھائيں اور ياد دہانى كرائيں تو يہ خير عظيم ہے اور اس ميں بہت بڑى فضيلت پائى جاتى ہے.
اور قرآن مجيد سننے والے كے ليے خاموشى اختيار كرنا مستحب ہے تا كہ وہ مستفيد ہو اور غور و فكر اور تدبر كر سكے اور جب قرآن مجيد كى تلاوت كے بعد اگر چاہيں تو دعا بھى كر سكتے ہيں اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں.
ليكن ان كا تكرار كے ساتھ بار بار يس يا كوئى اور سورۃ تلاوت كرنا اس كے متعلق تو ہمارے علم ميں كوئى دليل نہيں، ليكن ان كے ليے جو آسانى سے قرآن كى تلاوت كرنا ميسر ہو وہ تلاوت كريں چاہے بقرۃ سے يا كسى اور سورۃ سے، يا پھر آپس ميں ابتدا سے ليكر آخر تك سارا قرآن مجيد ايك دوسرے كو سنائيں يعنى ايك شخص پڑھے اور دوسرا سنے اور پھر دوسرا سنے اور باقى سنيں يا پھر ايك شخص پڑھے اور پھر وہى سورۃ دوسرا شخص اسے پڑھ كر سنائےتا كہ وہ سب مستفيد ہوں اور غور و فكر اور تدبر كر سكيں.
ليكن كسى ايك سورۃ كو كسى مخصوص كر كے متعين تعداد ميں پڑھنے كے متعلق ميرے علم ميں كوئى دليل نہيں، اور اسى طرح ميرے علم ميں تو نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے اجتماع ميں ہاتھ اٹھاتے اور صحابہ كرام آپ كى دعا پر آمين كہتے ہوں، بہتر يہى ہے كہ بغير ہاتھ اٹھائے جو آسانى كے ساتھ كى جا سكتى ہے وہ كى جائے، اور يہ اجتماعى نہ ہو.
بلكہ ہر شخص خود دعا كرے، ہمارے علم كے مطابق سنت يہى ہے، ليكن مجلس ميں بيٹھے ہر شخص كو چاہيے كہ وہ تدبر كرے اور سمجھے، اور تلاوت سمجھ كر كرنامقصود ہو نا كہ صرف پڑھنا.
ليكن مومن اس كا خيال كرے كہ جو پڑھ رہا ہے يا سن رہا ہے اس پر غور و فكر اور تدبر كرے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اس كتاب كو ہم نے آپ كى طرف بابركت بنا كر نازل كيا ہے تا كہ اس كى آيات پر تدبر كريں اور عقلمندوں كو اس سے نصيحت حاصل كرنى چاہيے ص ( 29 ).
چنانچہ قرآت كا مقصد يہ ہے كہ جو پڑھا جا رہا ہے اسے سنا جائے اور اس پر غور و فكر اور تدبر كيا جائے، اور اس پر عمل كيا جائے اور اس سے فائدہ حاصل كيا جائے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ توفيق و ہدايت سے نوازے ” انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ باز رحمہ اللہ .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب