وہ مسلمان عورتیں کیا کریں جن پرمجرمانہ حملے ہوئے اوراس کے نتیجہ میں وہ حاملہ ہوگئيں ، کیاان کےلیے اسقاط حمل جائز ہے کہ نہيں ؟
مجرمانہ حملے کی نتیجہ میں ہونے والا حمل ساقط کروانا
سوال: 13317
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
مسلمانوں پرذلت ورسوائي کے جوحالات گزررہے ہیں انہيں دیکھیں تویہ نظرآتا کہ اس وقت مسلمان ہرلالچی کا مطمع نظر ہے ان کی زمینوں پرناجائز قبضہ جمالیا گيا ہے ، ان کی عزت پامال کی جارہی ہیں ، اورہرجانب سے کفار قوتیں ان پر ٹوٹ پڑی ہیں ، اوربہت سی آزاد مسلمان عورتیں اکثراوقات انسانی بھیڑیوں کا ھدف بنی ہوئي ہیں ، جنہیں اللہ تعالی کا کوئي خوف نہيں اورنہ ہی یہ کسی باز رکھنے والی قوت سے ڈرتے ہیں ۔
جیسا کہ آج کل عالم اسلامی کے بہت سے ممالک میں حالت بنی ہوئي ہے ، جیسا کہ بوسنیا ، یا فلپائن اورشیشان میں ہورہا ہے یا پھر اریٹیریا میں یا عرب دنیا کے کمزورنظاموں کے ماتحت جیلوں میں ہورہا ہے ۔
ذیل میں ہم اس عورت کی حالت کی اہم نقاط کی نشاندھی کرتے ہیں جس پرغاصبانہ حملہ کیا گیا :
1 – جس عورت پرغاصبانہ حملہ ہوا اوراس نے ان مجرموں سے بچنے کے لیے اپنے دفاع میں پوری قوت صرف کی اس پر کوئي گناہ نہيں ، کیونکہ اس پرجبر ہوا ہے ، اورمکرہ یعنی جبرکیے جانے والے توکفر میں بھی گناہ گار نہيں ہوتا جوکہ زنا سے بھی بڑا گناہ ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
جوشخص اپنے ایمان کے بعد اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرے سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اوراس کا دل ایمان پر برقرار ہو ، مگر جولوگ کھلے دل سے کفرکریں توان پر اللہ تعالی کا غضب ہے اورانہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے النحل ( 106 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( یقینااللہ تعالی نے میری امت کوخطاء اوربھول اورجس پرانہیں مجبور کیا گيا ہو معاف کردیا ہے ) سنن ابن ماجۃ کتاب الطلاق حدیث نمبر ( 2033 ) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ابن ماجۃ ( 1664 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
بلکہ وہ عورت جوغاصبانہ حملے کا شکار ہوئي ہے جب وہ اس پہنچنے والی مصیبت پراجروثواب کی نیت کرے تووہ اس مصیبت پرصبرکرنے کی وجہ سے عنداللہ ماجور ہے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مسلمان کوجوبھی بھوک اورتکلیف پہنچتی ہے اورجوبھی غم وپریشانی پہنچتی ہے حتی کہ اسے کانٹا بھی لگے تواللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے گناہ معاف کردیتا ہے ) صحیح بخاری ، صحیح مسلم ۔
2 – مسلمان نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تکلیف دہ لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں تا کہ ان لڑکیوں کی تکلیف میں کمی ہوسکے اوران کی غمخواری ہو ، اوران کی چھینی گئي عصمت کا نعم البدل مل سکے ۔
3 – اب رہا ان کا اسقاط حمل کا معاملہ : تواصل بات تویہی ہے کہ حمل کی ابتداء سے ہی اسقاط حمل منع اورحرام ہے ، جب کہ ایک نئي زندگی میں آنے والا رحم میں مستقر ہوتا ہے ، اوراگرچہ یہ نیا آنے والا حرام تعلقات یعنی زنا کے نتیجے میں ہی کیوں نہ ہواس کا اسقاط حرام ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غامدیہ عورت کوجس نے زنا کا اقرار کیا اوررجم کی سزا کی مستحق ٹھری کوحکم دیا کہ وہ اپنے جنین کے ساتھ ہی واپس جائے اوربچے کی ولادت کے بعد آئے اورپھرولادت کے بعد اسے حکم دیا کہ وہ بچے کودودھ پلانے کی مدت پوری کرکے دودھ چھڑانے کے بعد آئے اوراس کے بعد اس پرحد نافذکی ۔
4 – کچھ فقھاء کرام ایسے بھی ہيں جوحمل کے ابتدائي چالیس ایام میں اسقاط حمل کوجائزقراردیتے ہیں ، اوربعض روح ڈالے جانے سے قبل تک اسقاط کی اجازت دیتے ہیں ، اورجتنا بھی عذر قوی ہوگا اسقاط کی رخصت بھی زیادہ ظاہر ہوگي ، اورپھر جتنا بھی چالیس یوم سے قبل ہوگا اتنا ہی رخصت کے زيادہ قریب ہوگا ۔
5 – اس میں کوئي شک وشبہ نہيں کہ مسلمان آزاد عورت پرفاجر وفاسق دشمن کی جانب سے غاصبانہ حملہ مسلمان عورت کے لیے بہت ہی زيادہ قوی عذر ہے ، اوراسی طرح اس کے خاندان والوں کے لیے بھی قوی عذر کی حیثیت رکھتا ہے ، وہ عورت اس مجرمانہ حملہ کے نتیجہ میں ہونے والے اس حمل کوناپسند کرتی اوراس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے ، تویہ رخصت ہے اورضرورت کی بنا پراس کا فتوی دیا جاسکتا ہے اورخاص کرحمل کے ابتدائي ایام میں اسقاط حمل کا فتوی ۔
6 – اوریہ بھی ہے کہ اس مصیبت میں مبتلا ہونے والی مسلمان عورت کے لیے کوئي حرج نہیں کہ وہ اس بچے کی حفاظت کرے لیکن اس پرجبرنہيں کیا جاسکتا کہ وہ لازما اسقاط حمل کروائے ، اوراگروہ حمل باقی رہے اورمدت پوری کرنے کے بعد ولادت بھی ہوتویہ بچہ مسلمان ہوگا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ہرپیدا ہونے والا بچہ فطرت پرپیدا ہوتا ہے ) صحیح بخاری ۔
اورفطرت سےمراد دین توحید اوروہ اسلام ہے ، اورفقہ میں مقرر ہے کہ جب والدین کا مختلف ہوتوبچہ اس کے تابع ہوگا جودینی طور پربہتر ہو ، یہ تواس کے بارہ میں ہے جس کا باپ معروف ہو اورپھر جس کا والد ہی نہ ہووہ کس طرح مسلمان نہيں ہوگا ؟ وہ بلاشبہ مسلمان بچہ ہوگا ۔
اورمسلمان معاشرے کےلیے ضروری ہے کہ وہ اس بچے کی دیکھ بھال کرے اوراس کا خرچہ برداشت کرے اوراس کی حسن تربیت کا بھی انتظام کرے ، اوراسے مسکین اورمصیبت میں مبتلا ماں کے لیے بوجھ نہ بناکررکھ دیں ۔
اورجب اسلام کے قواعد اوراصول میں رفع الحرج اورعدم مشقت وتکلیف پایا جاتا ہے ، اوراس میں کوئي شک نہيں کہ اپنی عفت وعصمت پرحریص مسلمان لڑکی جب وحشی اورمجرمانہ حملے کا شکار ہوتی ہے تواس کے نتیجہ میں وہ اپنی عزت وشرف اورنیک نامی کے بارہ میں ڈرتی ہے کہ اس کے بعد اسے کوئي نہیں پوچھے گا اوروہ پیھنک دی جائے گي یا پھروہ اذیت وتکلیف میں پڑ جائے گي مثلا قتل وغیرہ میں ۔
یا پھر وہ نفسیاتی اورعصبی مریضہ بن جائے گی یا وہ دماغی مریضہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے یا پھر اس کے خاندان میں عار اوربدنامی ہوگی اوروہ بھی ایسے معاملہ میں جس میں اس کاکوئي گناہ نہيں تھا ، یا یہ کہ یہ پیدا ہونے والا بچہ کوئي ایسی امن والی جگہ حاصل نہيں کرسکےگا جہاں وہ پل سکے ، تواس حالت میں میں کہوں گا :
اگرتوواقعی معاملہ ایسا ہی ہے توروح ڈلنے سے قبل اسقاط حمل جائز ہے ، اورخاص کراب توآسانی ہوچکی ہے کہ جدید میڈیکل وسائل کی بنا پر شروع یعنی پہلے ہفتہ میں ہی حمل کا علم ہوجاتا ہے ، اوراسقاط حمل میں جتنی جلدی ہواتنا ہی رخصت پرعمل کرنا وسعت رکھتا ہے اوراس پرعمل پیرا ہونا آسان ہے ، واللہ تعالی اعلم ۔ .
ماخذ:
دیکھیں : احکام الجنین فی الفقہ الاسلامی تالیف : عمربن محمد بن ابراھیم غانم ۔