مجھے کسی نے کہا: کیا تم نے حج کیا ہے؟ میں نے کہہ دیا : ہاں، حالانکہ میں نے حج نہیں کیا ہوا تھا، اور اس طرح میں نے تین سال تک مسلسل حج بدل کیا، مجھے حکم کا بھی پتہ تھا کہ حج بدل کرنے والے کیلئےپہلے اپنی طرف سے کرنا ضروری ہے، تو اب مجھ پر کیا لازم ہے اور میرے لئے کیا حکم ہے؟
جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ میں نے پہلے اپنی طرف سے حج کیا ہو اہے اور پھر تین بار کسی کی طرف سے حج کیا
سوال: 133289
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پہلی بات:
یہ تو واضح ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے کیا جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے، اس کی وجہ سے حج بدل کروانے والے کا حج مؤخر ہوگا، اس لئے واجب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے توبہ کرو، اور جو کچھ آپ نے کیا اس پر پشیمان بھی ہوں۔
دوسری بات:
کسی کیلئے کہ جائز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے حج کرنے سے پہلے کسی کی طرف سے حج کرے، اگر اس نے اپنا حج کرنے سے پہلےکسی کی طرف سے حج کیا تو یہ حج اُسی کی طرف سے ہوگا، اور اسے وصول کی ہوئی رقم واپس کرنی ہوگی۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتےہیں:
“جس نے کسی کی طرف سے حج کیا اور اُ س نے اپنی طرف سے حج نہیں کیا ہوا تھا ، تو وہ وصول کی ہوئی رقم واپس کریگا اور یہ حج اُس کی اپنی طرف سے ہوگا”، یعنی خلاصہ کلام یہ ہے کہ: جس نے حجۃ الاسلام پہلے نہیں کیا، وہ کسی دوسرے کی طرف سے حج بدل نہیں کر سکتا، اور اگر اس نے پھر بھی کیا تو اسکا احرام اپنے ہی حجۃ الاسلام کا ہوگا، امام شافعی ، اوزاعی، اور اسحاق اسی بات کے قائل ہیں۔
اسکی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا: “میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ شبرمہ کون ہے؟) تو اس نے کہا: میرا عزیز ہے، آپ نے فرمایا: (کیا تم نے کبھی حج کیا ہے؟) اس نےکہا: نہیں، آپ نے فرمایا: (تو یہ حج اپنی طرف سے کرو، پھر بعد میں شبرمہ کی طرف سے کرنا) احمد، ابو داود، اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں
جب یہ ثابت ہوگیا؛ تو اسے وصول کی ہوئی رقم واپس کرنا ہوگی، اس لئے کہ انکی طرف سے حج نہیں ہوا، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے اُن کی طرف سے حج کیا ہی نہیں ”
“المغنی” (3/102)
مذکورہ بالا بیان کے بعدپتہ چلا کہ پہلا حج آپکی طرف سے ہوگیا، اور اس پہلے حج کی رقم واپس کرنا لازمی ہے، یا پھر اس سال تم انکی طرف سے حج کردو، اگر حج کی استطاعت نہیں ہے تو تم کسی کو رقم دے کر حج کرنے کیلئے بھیج دو، جبکہ دوسرے اور تیسرے حج میں نیابت ٹھیک ہے؛ اس لئے کہ وہ پہلے حج کے بعد آپ نے کیا جو کہ آپکی طرف سے فرض ادا ہوگیا۔
تیسری بات:
کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ حج کرنے کا مقصد حصولِ مال ہو، بلکہ اسکا مقصد حج اور مشاعر مقدسہ میں پہنچنا ہو، اور اپنے بھائی کی طرف سے حج کر کے اسکی خیر خواہی مطلوب ہو، چنانچہ شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حج میں کسی کی طرف سے نیابت کرنا سنت رسول میں موجود ہے، اس لئے کہ ایک خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اورکہا: اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں پر فریضہ حج میرے والد پر ابھی باقی ہے، اور وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا تو کیا میں اسکی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: (ہاں)۔
اور حج میں رقم کے بدلے میں نیابت کرنے کے بارے میں یہ ہےکہ : اگر انسان کا مقصد صرف رقم کا حصول ہے تو اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتےہیں : “جس نے صرف اس لئے حج کیا کہ کھانے پینے کو مل جائے گا، تو اس کیلئے آخرت میں کچھ نہیں ہے”اور جو اس لئے رقم لیتا ہے تا کہ حج کر سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے نیابت کرنے کیلئے رقم وصول کرتے ہوئے نیت یہ ہو کہ یہ رقم اس کیلئے حج کے دوران مددگار ہوگی، اور یہ بھی نیت کرے کہ جس کی طرف سے حج کر رہا ہے اسکی ضرورت پوری ہوگی، اس لئے کہ جو حج بدل کروا رہا ہے وہ ضرورت مند ہے، اور اسے خوشی ہوتی ہے جب اسے کوئی حج بدل کرنے والا مل جاتا ہے، اس لئے حج بدل کرنے والے کو حج کی ادائیگی کے ذریعے احسان کی نیت کرنی چاہئے”
” لقاءات الباب المفتوح ” ( 89 / السؤال 6 )
انہوں نے مزید کہا:
“بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کی طرف سے حج صرف اور صرف مال کمانے کی غرض سے کرتے ہیں، اور یہ ان کیلئے حرام ہے؛ اس لئے کہ عبادات کو دنیا کمانے کی غرض سے نہیں کیا جاسکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ . أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ )
ترجمہ: جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہے تو ہم ایسے لوگوں کو دنیا میں ہی ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے دیتے ہیں اور وہ دنیا میں گھاٹے میں نہیں رہتے [١5] یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں آگ کے سوا کچھ حصہ نہیں۔ جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ برباد ہوجائے گا اور جو عمل کرتے رہے وہ بھی بے سود ہوں گے۔ ہود/ 15، 16
( فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ )
ترجمہ: پھر لوگوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں : ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں سب کچھ دنیا میں ہی دے دے۔” ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ بقرہ/200
اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے سے کوئی ایسی عبادت قبول نہیں کرتا جس کامقصد اللہ کی ذات نہ ہو، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت گاہوں کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے سے روکا ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: (جب تم کسی کو دیکھو کہ مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہے، تو تم اسے کہو: اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے)، چنانچہ اگر عبادت گاہ کو جائے تجارت بنانے پر اس کے خلاف بد دعا کی جارہی ہےکہ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے ، تو اس شخص کے بارے میں کیا خیا ل ہے جس نے عبادت کو ہی ذریعہ تجارت بنا لیا، گویا کہ اس نے حج کو سامانِ تجارت بنا دیا ہے، یا جیسے اس نے کسی کا گھر یا دیوار بناتے ہوئے اس نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت دیکھائی ہے!! آپ دیکھو گے کہ جسے آپ نائب بنانا چاہتے ہو وہ اس پر بھاؤ لگانا شروع ہوجاتا ہے، کہ یہ رقم تو تھوڑی ہے!، مجھے فلاں شخص اس سے زیادہ دے رہا تھا!، یا فلاں نے مجھے حج کیلئے اتنی رقم دی تھی!، وغیرہ وغیرہ ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس شخص نے عبادت کو ایک پیشہ بنا لیا ہے، اسی لئے حنبلی فقہاءنے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ : کسی شخص کو اجرت دے کر حج بدل کروانا درست نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو شخص بھی حج مال کے حصول کیلئے کرتا ہے اس کے لئے آخرت میں کچھ بھی نہیں، ہاں اگر کسی دینی مقصد سے وہ رقم لیتا ہے ، مثال کے طور پر اسکی نیت ہے کہ میں اپنے بھائی کی طرف سے حج کر کے اسے فائدہ پہنچاؤں گا ، تو ٹھیک ہے، یا اسکا مقصد مشاعر میں پہنچ کر زیادہ سے زیادہ عبادت، ذکر کرنا ہوتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، یہ نیت درست ہے”
جو لوگ حج میں نیابت کرنے کیلئے کسی سے رقم لیتے ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نیت خالص کر لیں، انکا مقصد بیت اللہ کا حج کرنا ہو، اللہ کا ذکر اور دعائیں کرنا انکا مقصد ہونا چاہئے، اور ساتھ میں ایک مسلمان کی حاجت کو پورا کرنابھی مقصد میں شامل ہونا چاہئے، انہیں چاہئے کہ مال کمانے کی نیت سے دور ہوجائیں ، لہذا اگر انکی نیت صرف مال کمانا ہے تو ان کیلئے نیابت کرتے ہوئے رقم کی وصولی درست نہیں ہے، چنانچہ جوں ہی انکی نیت درست ہوگی تو جو کچھ بھی انہیں دیا جائے گا وہ اسی کا ہے، اِلاّ کے باقی بچ جانے والی رقم کی واپسی کیلئے شرط لگا دی جائے” انتہی
” الضياء اللامع من الخطب الجوامع ” ( 2 / 477 ، 478 )
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب