ميرا سوال ہے كہ ايشا كے لوگوں كا اعتقاد ہے كہ عيد الفطر اور عيد الاضحى كے مابين شادى كرنا صحيح نہيں، كيونكہ اگر اس مدت ميں شادى ہو جائے تو خاوند اور بيوى ميں سے ايك كو موت آ جائيگى، ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں آيا يہ نظريہ اسلام كے مطابق صحيح ہے يا نہيں ؟
اسى طرح آپ نے ايك جواب ميں يہ ذكر كيا ہے كہ پندرہ شعبان كو نماز اور روزے كے ليے مخصوص كرنا جائز نہيں، اگر كوئى شخص مستقل طور پر اپنى عادت كے مطابق عبادت كرتا رہے تو ثواب زيادہ ہو گا.
جہاں ميں رہائش پذير ہوں وہاں كے اكثر لوگ اس دن روزہ ركھتے اور نماز ادا كرتے ہيں ان كا كہنا ہے كہ اس كا بہت زيادہ اجروثواب حديث ميں بيان ہوا ہے، جب ميں نے آپ كا يہ جواب انہيں بتايا تو ان كا كہنا تھا اس كى فضيلت تو حديث شريف ميں پائى جاتى ہے، كيا يہ صحيح ہے ؟
عيدين كے درميان شادى كے متعلق خرافات اور اس ميں شرعى محذور
سوال: 13475
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پہلا سوال دو شقوں پر مشتمل ہے:
پہلى شق كا جواب:
سوال ميں مذكورہ اعتقاد صحيح نہيں، بلكہ يہ بدعات و گمراہى ميں شامل ہوتى ہے جس كى شريعت ميں كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى، اور نہ ہى كتاب و سنت اس پر دلالت كرتى ہے.
دوسرى شق كا جواب:
يہ اعتقاد كئى اعتبار سے شريعت اسلاميہ كے مخالف ہے:
اول:
اس مدت ميں موت كا اعتقاد ركھنا جائز نہيں، كيونكہ موت و حيات تو اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاتھ ميں ہے، اور انسان كى موت كا وقت ان امور ميں شامل ہوتا ہے جس كا اللہ تعالى نے علم صرف اپنے پاس ركھا ہے مخلوق ميں سے كوئى بھى اس كى موت كے وقت كا علم نہيں ركھتا.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اس معاملہ پر مخلوق ميں سے كسى كو بھى مطلع نہيں كيا، اسى ليے حديث جبريل ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان فرماتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” پانچ اشياء ايسى ہيں جن كا علم اللہ كے علاوہ كسى كو نہيں ”
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت فرمائى:
إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَداً وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ لقمان34
بے شك قيامت كا علم اللہ تعالى كے پاس ہے، وہى بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں كے پيٹ ميں جو ہے اسے جانتا ہے، كوئى ( بھى ) نہيں جانتا كہ كل كيا ( كچھ ) كرے گا؟ نہ كسى كو يہ معلوم ہے كہ كس زمين ميں مرےگا، اللہ تعالى ہى پورے علم والا اور صحيح خبروں والا ہے لقمان ( 34 ).
صحيح بخارى حديث نمبر ( 48 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 10 ).
اس ليے يہ دعوى كرنا كہ اس مدت كے دوران شادى كرنا موت كا باعث ہے يہ علم غيب كا دعوى ہے اور جو كوئى بھى علم غيب كا دعوى كرے وہ كذاب اور جھوٹا ہے، اسى ليے جو علم غيب كا دعوى كرے وہ شيطانوں كا سردار ہے.
دوم:
اس ميں ايمان پر جرح و قدح ہے، كيونكہ اس ميں قضاء و قدر پر ايمان نہ ركھنا ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى كو يہ تعليم دى كہ:
” يہ علم ميں ركھو كہ اگر سارى امت تجھے نفع دينے پر اكٹھى ہو جائے تو تجھے صرف اتنا اور وہى نفع دے سكتى ہے جو اللہ نے تيرے ليے لكھ ركھا ہے، اور اگر سارى امت اكٹھى ہو كر تجھے كوئى نقصان دينے كى كوشش كرے تو وہى نقصان دے سكتى ہے جو اللہ نے تيرے ليے لكھ ديا ہے، قلميں اٹھا لى گئيں ہيں اور صحيفہ خشك ہو چكے ہيں ”
سنن ترمذى باب صفۃ القيامۃ ( 2440 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 2043 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں ہے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
” اللہ سبحانہ و تعالى نے آسمان و زمين پيدا كرنے سے پچاس ہزار برس قبل مخلوق كى تقدير لكھ دى تھى …. ”
صحيح مسلم كتاب القدر حديث نمبر ( 4797 ).
سوم:
اس سے تو توحيد اور اس كے كمال ميں جرح و قدح ہے، كيونكہ اس ميں بدشگونى اور بدفالى ہے، اور حديث ميں وارد ہے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” نہ تو كوئى متعدى بيمارى ہے اور نہ ہى بدشگونى و بدفالى اور نہ ہى ميت كى ہڈياں پرندہ بنتى ہيں، اور نہ ہى صفر حرمت والا مہينہ ہے ”
صحيح بخارى كتاب الطب حديث نمبر ( 5316 ).
التطير: بد فالى اور بدشگونى كو كہتے ہيں.
اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” بدشگونى اور بدفالى شرك ميں سے ہے ”
سنن ترمذى كتاب السير حديث نمبر ( 1539 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 1314 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہ علم ميں ركھيں كہ بدشگونى و بدفالى توحيد كے منافى ہے اور اس كى دو وجہيں ہيں:
اول:
بدشگونى كرنے والا اللہ پر توكل ترك كر كے كسى دوسرے پر اعتماد كرتا ہے.
دوسرى:
اس نے ايسے معاملہ كے ساتھ تعلق قائم كيا ہے جس كى كوئى حقيقت ہى نہيں، بتائيں كہ اس معاملے اور جو اس سے حاصل ہو گا اس ميں كونسا رابطہ ہے، بلاشك يہ توحيد ميں مخل ہوتا ہے، كيونكہ توحيد عبادت و استعانت ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ہم تيرى ہى عبادت كرتے ہيں، اور تجھ سے ہى مدد مانگتے ہيں الفاتحۃ ( 4 ).
اور ارشاد بارى تعالى ہے:
اسى كى عبادت كرو اور اس پر توكل كرو ھود ( 123 ).
اسى ليے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہا كرتى تھيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ساتھ شوال ميں شادى كى اور شوال ميں ہى رخصتى كى، اور وہ سب بيويوں سے زيادہ نصيبے والى تھيں ”
عرب لوگ اس ماہ ميں شادى كرنے بدشگونى سمجھتے تھے ان كا كہنا تھا كہ اگر شوال ميں شادى كى جائے تو وہ شادى كامياب نہيں ہوتى، حالانكہ اس كى كوئى حقيقت نہيں ….
بدشگونى كرنے والا شخص دو حالتوں سے خالى نہيں رہتا:
اول:
وہ اس بدشگونى كو تسليم كرتے ہوئے كام ترك كر دے، يہ سب سے بڑى بدشگونى اور بدفالى ہے.
دوسرى:
وہ كام تو كر گزرے ليكن اس كو پريشانى اور قلق رہے اور غم و ہم كى بنا پر اسے اس بدشگونى كى تاثير كا خدشہ ہو، يہ پہلى سے كم درجہ كى ہے، ليكن دونوں معاملے ہى توحيد كے ليے ناقض اور ضرر و نقصاندہ ہيں ” اھـ
ديكھيں: القول المفيد ابن عثيمين ( 2 / 77 – 78 ).
عملى واقع كےاعتبار سے ہم اس خرافت كى سنت نبويہ ميں تكذيب پاتے ہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب سے محبوب ترين بيوى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى بھى دونوں عيدوں كے درميان كى اور پھر رخصتى بھى عيدين كے درميان ہوئى، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سب لوگوں سے زيادہ نصيبے والى تھيں، بلكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اس جاہلى گمان كا رد كرتے ہوئے فرمايا:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھ سے شادى شوال ميں كى اور ميرى رخصتى بھى شوال ميں ہوئى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نزديك ميرے علاوہ كونسى عورت زيادہ نصيبے والى تھى ”
عروہ بن زبير فرماتے ہيں:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا مستحب سمجھتى تھيں كہ عورتوں كى رخصتى شوال ميں ہو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1423 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں::
” اس حديث ميں ماہ شوال ميں شادى كرنے اور شادى كروانے اور رخصتى كرنے كا استحباب پايا جاتا ہے، اور ہمارے اصحاب نے اس كا استحباب بيان كيا اور اس حديث سے استدلال كيا ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اس كلام سے دور جاہليت كى عادت كا رد كيا ہے، آج عوام كے ہاں ماہ شوال ميں شادى مكروہ اور ناپسند سمجھنے كا خيال اور وہم پايا جاتا ہے يہ باطل ہے اس كى كوئى دليل نہيں، اور يہ جاہليت كے آثار ميں سے ہے، وہ اس سے بدشگونى ليتے تھے كہ شوال كا معنى ركنا ہے.. ” اھـ
ديكھيں: شرح صحيح مسلم للنووى ( 9 / 209 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا شوال ميں عورت كى شادى يا رخصتى مستحب قرار ديتى اور فرمايا كرتى تھيں:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے ساتھ شادى شوال ميں كى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں ميرے علاوہ اور كونسى عورت زيادہ نصيبے والى تھى ”
حالانكہ لوگ شوال ميں شادى كرنے كو بدشگونى قرار ديتے تھے، جن مومنوں كا اللہ پر توكل ہے اور وہ اولى العزم اور قوت كے مالك ہيں ان كا فعل يہى ہے، اور ان كا دل اپنے رب پر مطمئن ہے اور اس پر بھروسہ كرتے ہيں، ان كو علم ہے كہ جو اللہ چاہے وہى ہوتا ہے، اور جو اللہ نہ چاہے وہ نہيں ہوتا.
اور انہيں وہى پہنچے گا جو اللہ تعالى نے ان كے ليے لكھ ديا ہے، اور انہيں وہى مصيبت آئيگى جو ان كى پيدائش سے بھى پہلے لكھ دى گئى ہے، اور انہيں علم ہے كہ جو اللہ نے لكھ ديا ہے اور مقدر كر ديا ہے وہ اس كو پہنچ كر رہينگے.
اور ان كا بدشگونى اختيار كرنا قضاء و قدر كو ان سے ہٹا نہيں سكتا، بلكہ ہو سكتا ہے كہ ان كى يہ بدشگونى سب سے بڑا سبب ہو جو ان پر قضاء و قدر جارى ہے تو وہ اپنے خلاف اس كى معاونت كرتے ہوں.
اور ان كے نفس ہى مكروہ اور مصيبت كا باعث ہوں، تو ان كى بدشگونى ان كے ساتھ ہے، ليكن اللہ پر توكل كرنے والے اور اپنے معاملات كو اللہ كے سپرد كرنے والے جو اسے جانتے ہيں اور اس كے احكام كا بھى علم ركھتے ہيں ان كے نفس اس سے اشرف ہيں، اور ان كى ہمتيں اعلى اور ان كا اللہ پر بھروسہ بھى اعلى ہے، ان كا اللہ كے ساتھ حسن ظن ان كے ليے تيارى و قوت اور بدشگونى سے ڈھال ہے جس سے لوگ بدشگونى اور بدفالى ليتے ہيں، انہيں علم ہے كہ كوئى بدشگونى نہيں، اور خير تو صرف اللہ كى خير ہى ہے، اور اس كے علاوہ كوئى اور الہ نہيں، خبر دار اسى كے ليے خلق بھى اور امر بھى اسى كا ہے، رب العالمين بابركت ہے.
ديكھيں: مفتاح دار السعادۃ ( 2 / 261 ).
دوسرے سوال كے متعلق عرض يہ ہے كہ:
آپ نصف شعبان كى رات كا جشن منانے كے حكم كے متعلق جواب معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر (8907 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات