جب عورت کے جسم سے کوئی حصہ مثلاً: سینہ، بال یا گردن کا کچھ حصہ بغیر قصد اور ارادے کے ظاہر ہو جائے پھر عورت فوری طور پر نماز کی حالت میں ہی اسے دوبارہ ڈھانپ لیا تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ نماز کو دہرائے یا اس پر کوئی چیز لازم ہے ؟
کسی عورت کا بدن سے نماز کی حالت میں کچھ حصہ ننگا ہوا پھر اس نے فورا ڈھانپ لیا
سوال: 135372
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ستر چھپانا جمہور علماء کے نزدیک نماز کی صحت کے لیے شرط ہے، اس حکم میں مرد اور عورت برابر ہیں ۔
نماز میں عورت کے ستر کی حد جاننے کے لئے سوال نمبر(1046 )کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اللہ تعالی بالغ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں فرماتا)
اسے ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے سنن ابو داؤد میں اسے صحیح کہا ہے ۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن لوگوں کے نزدیک ستر چھپانا نماز کے فرائض میں سے ہے، انہوں نے اجماع سے اس کی دلیل لی ہے کہ جو شخص کپڑے ہونے کے باوجود انہیں نہیں پہنتا اور ننگا ہی نماز ادا کرتا ہے اس کی نماز فاسد ہے، اس کے بعد مزید کہا کہ اس پر تمام کا اجماع ہے" انتہی
"المغنی"(1/337)
دوم:
جو اپنے ستر کو چھپا کر نماز پڑھے لیکن اس کا کچھ حصہ بغیر ارادے کے ظاہر ہو جائے اور فوری اسے ڈھانپ لے تو اس کی نماز درست ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، چاہے ستر مغلظہ ہو[مرد و عورت کی اگلی اور پچھلی شرم گاہ ] یا مخففہ[شرم گاہ کے علاوہ باقی ستر]،چاہے ظاہر ہونے والا حصہ زیادہ ہو یا معمولی۔
"کشاف القناع"(1/269) میں ہے کہ:
" ستر کا اگر معمولی حصہ بغیر قصد کے ظاہر ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہوتی ۔۔۔اگرچہ یہ معمولی حصہ کافی دیر تک برہنہ رہے، اسی طرح اگر زیادہ حصہ ،تھوڑی دیر کے لئے ظاہر ہوا تو بھی نماز باطل نہ ہوگی، چنانچہ اگر ہوا کے چلنے سے اس کا کپڑا ستر سے اڑ گیا اور نا قابل معافی حصہ [یعنی : شرم گاہ]ظاہر ہو گیا اگرچہ کافی دیر برہنہ رہے اور چاہے شرم گاہ مکمل طور پر ظاہر ہو جائے، اور اس نے جلدی سے بغیر عمل کثیر کے کپڑا درست کر لیا تو نماز باطل نہ ہوگی؛ کیونکہ زیادہ حصے کا تھوڑی دیر کے لیے ظاہر ہونا ایسے ہی ہے جیسے تھوڑے حصے کا زیادہ دیر کے لیے ظاہر ہونا، ہاں اگر کپڑے درست کرنے کے لیے اسے زیادہ حرکت کرنا پڑی تو نماز باطل ہو جائے گی " انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اگر ستر کا کافی زیادہ حصہ ظاہر ہوا لیکن اسے جلد ہی ڈھانپ لیا تو نماز باطل نہیں ہوگی، اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ رکوع میں تھا اور ہوا چل پڑی اور کپڑا ہٹ گیا، لیکن اس نے اسی وقت کپڑا درست کر لیا، تومؤلفِ [زاد المستقنع ] کے کلام سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نماز باطل ہو جائے گی، لیکن درست بات یہ ہے کہ نماز باطل نہ ہوگی، کیونکہ اس نے جلد ہی ستر کو ڈھانپ لیا تھا اور اسے جان بوجھ کر ننگا نہیں کیا تھا، اور اللہ تعالی فرماتا ہے :فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْبقدر استطاعت اللہ سے ڈرو [التغابن :16]"انتہی
"الشرح الممتع " (2/75)
چنانچہ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جب کہ فورا کپڑا درست کر لیا گیا ہے لہذا آپ کی نماز درست ہے اور اسے دہرانا آپ پر لازم نہیں ہے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات