رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) کا کیا معنی ہے؟ اور کیا اس میں اللہ تعالی کے لیے اکتاہٹ کی صفت ثابت ہوتی ہے؟
اس حدیث کا کیا مطلب ہے: (اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے)
سوال: 136566
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
صحیح بخاری: (43) اور مسلم : (785)میں ہے – یہ الفاظ مسلم کے ہیں- عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے اور ایک عورت میرے قریب بیٹھی تھی، تو آپ نے پوچھا: (یہ کون ہے؟) تو میں نے کہا: یہ سوتی نہیں ہے ساری رات نماز پڑھتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اتنی ہی عبادت کرو جس کی تمہارے اندر طاقت ہے، اللہ کی قسم ! اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) اور اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عبادت وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے ۔
اس حدیث کے ظاہری الفاظ میں اللہ تعالی کےلئے اکتاہٹ ثابت ہوتی ہے لیکن اس انداز سے جو اللہ تعالی کی شان کے لائق ہو۔
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"(بیشک اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) یہ حدیث اللہ تعالی کی صفات بیان کرنے والی احادیث میں شامل ہے، لیکن یہاں اکتاہٹ اسی انداز سے اللہ تعالی کے لیے ثابت ہو گی جیسے اس کی شان کے لائق ہو، اس میں کسی قسم کی کوئی عیب والی بات نہ ہو، اس کا حکم انہی نصوص جیسا ہے جو کہ ظاہری طور پر میں استہزا، اور مکاری کا معنی دیتی ہیں ۔" ختم شد
فتاوی شیخ محمد بن ابراہیم : (1/ 179)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"اس حدیث کو ایسے ہی ماننا واجب ہے جیسا کہ اس میں بیان ہوا ہے، اس میں مذکور صفت پر ایمان رکھنا ضروری ہے لیکن یہ صفت اللہ تعالی کے بارے میں اسی انداز میں ہو گی جیسے اللہ تعالی کی شان کے لائق ہو، اس صفت کے اثبات میں کسی قسم کی مخلوق سے مشابہت نہ ہو، نہ اس کی کیفیت بیان کی جائے، بالکل اسی طرح جیسے کہ اللہ تعالی کے بارے میں مکر، خداع [دھوکا] اور کید [عیاری] کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے [تو جو طریقہ کار ان صفات کے بارے میں اپنایا جاتا ہے وہی طریقہ صفت اکتاہٹ کے بارے میں اپنایا جائے گا]، تو یہ تمام صفات بھی اللہ تعالی کے شایان شان انداز میں اللہ تعالی کے لیے ثابت ہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُاس جیسا کچھ نہیں ہے ، نیز وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الشورى: 11]"
اللہ تعالی سمجھنے کی توفیق دے، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے" ختم شد
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، شیخ عبد اللہ بن غدیان، شیخ عبد العزیز آل شیخ، شیخ صالح فوزان۔
"فتاوی لجنہ دائمہ" (2/402)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھی یہ سوال پوچھا گیا کہ: کیا ہم اللہ تعالی کے لیے اکتاہٹ کی صفت ثابت مانیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیث میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) تو کچھ علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالی کے لیے صفت اکتاہٹ کی دلیل ہے لیکن ان کے ہاں یہ اکتاہٹ ایسی نہیں ہے جیسے مخلوق کو اکتاہٹ ہوتی ہے ؛ کیونکہ مخلوق میں پائی جانے والی اکتاہٹ عیب ہے، کیونکہ مخلوق جس وقت اکتا جائے تو ان میں ذہنی تناؤ اور تھکاوٹ پائی جاتے ہے، جبکہ اللہ تعالی کی جانب اکتاہٹ کی نسبت ہو تو پھر اس میں عیب والی کسی بات کا تصور بھی ممکن نہیں اس میں کمال ہی کمال ہوتا ہے، چنانچہ اس صفت کو دیگر تمام صفات کی طرح کمال پر ہی محمول کریں گے، اگرچہ وہی صفت جب مخلوق میں پائی جائے تو کمال کی دلیل نہیں ہوتیں۔
جبکہ کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ اس حدیث (اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جتنا بھی عمل کر لے اللہ تعالی تمہیں اس کا بدلہ لازمی عطا فرمائے گا، اس لیے جو نیک عمل کر سکتے ہو کرتے جاؤ اللہ تعالی تمہیں ثواب دینے سے نہیں اکتائے گا یہاں تک کہ تم عمل کرنے سے اکتا جاؤ ، اس لیے یہاں پر اکتاہٹ سے مراد اکتاہٹ کا لازم معنی مراد ہو گا۔
اور کچھ اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں صفت اکتاہٹ کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اگر کوئی شخص کہے: میں اس وقت تک کھڑا نہیں ہوں گا جب تک تم کھڑے نہیں ہوتے، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ دوسرا شخص کھڑا ہو کر ہی رہے گا، تو اسی طرح اس حدیث میں بھی اللہ تعالی کا صفت اکتاہٹ اور تھکاوٹ سے موصوف ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
بہر حال ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالی کسی بھی عیب والی صفت سے موصوف نہیں ہے چاہے وہ اکتاہٹ کی ہو یا کوئی اور صفت ہو، لہذا اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ اس حدیث میں صفت اکتاہٹ کی دلیل موجود ہے تو پھر یہاں اکتاہٹ اور تھکاوٹ سے مراد ایسی تھکاوٹ یا اکتاہٹ نہیں ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہے۔" ختم شد
مجموع فتاوی ابن عثیمین: (1/174)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب