سوال: کیا کوئی ایسی مخصوص دعا ہے جو کند ذہن طلبا کیلیے معاون ثابت ہو، مجھے کسی نے کہا ہے کہ اس طرح دعا کی جائے: “یا اللہ! ہمیں اپنی طرف سے حکمت عطا فرما، ہم پر اپنی رحمت برسا، یا ذو الجلال والاکرام”
کوئی ایسی مخصوص دعا ہے جو قوتِ فہم میں اضافہ کا باعث بنے؟
سوال: 139005
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ قوتِ فہم میں اضافہ کیلیے دو چیزیں بہت ہی اہم ہیں :
1-سبق سمجھنے کیلیے تمام حقیقی وسائل بروئے کار لائیں، یعنی: خاموشی اور دھیان کے ساتھ سنیں، اسے یاد رکھیں، اور سبق کے بارے میں غور و فکر کریں، نیز جس بات کی سمجھ نہ آئے اس کے متعلق سوال کر لیں، ان تمام امور کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے، البتہ ابتدائی طور پر انہیں عملی جامہ پہنانا مشکل ہو سکتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ طالب علم کیلیے اس پر مہارت حاصل ہو جاتی ہے، اور اگر ان چیزوں پر عمل جاری رکھے تو یہ چیز اس کی فطرت میں داخل ہو جاتی ہے۔
2-اللہ تعالی سے سچے دل کے ساتھ دعا مانگیں اسی سے فہم اور علم کا سوا ل کریں، کیونکہ علم ایک نور ہے اور اللہ تعالی جس کے دل میں چاہتا ہے یہ نور ڈال دیتا ہے، چنانچہ اگر کوئی دل اللہ تعالی سے دور ہو تو وہ اس نور کو حاصل کرنے کیلیے تیار نہیں ہو سکتا، جبکہ عبادت، محبت، توبہ، استغفار اور رجوع کے ذریعے اللہ تعالی کے قریب ہونے والے دل کیلیے عین ممکن ہے کہ اللہ عز وجل اسے علم سے نواز دے۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتاب “اعلام الموقعین” میں متعدد امور ذکر کیے ہیں جن سے مفتی صاحبان کو مسائل سمجھنے اور ان کی حقیقت تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے، نیز جدید مسائل کا حل جلد تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ، تاہم ان تمام امور کو کوئی بھی طالب علم یا متلاشیانِ حق اپنا سکتا ہے، آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کامیاب مفتی کو چاہیے کہ اگر کوئی بھی نیا مسئلہ سامنے آئے تو حقیقی انداز میں اللہ تعالی جو کہ صحیح بات الہام کرنے والا ہے، خیر سکھلانے والا اور دلوں کو رہنمائی دینے والا ہے سے دعا کرے کہ اسے صحیح سمت دکھائے اور بند راستے اس کیلیے کھول دے، اور در پیش مسئلہ کے بارے میں اُس نے اپنے بندوں کیلیے کیا احکامات رکھے ہیں ان پر اس کی رہنمائی کرے، چنانچہ جب بھی اور کوئی بھی اس دروازے پر دستک دے تو وہ کامیابی کے دروازے پر ہی دستک دیتا ہے، اور پروردگار اسے اپنے فضل سے محروم نہیں فرمائے گا، چنانچہ جب یہ محسوس کرے کہ دل میں اللہ تعالی سے مانگنے کی تڑپ پیدا ہو گئی ہے تو سمجھ لے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے کامیابی کی ابتدائی خوشخبری ہے ، اب پوری کوشش کے ساتھ حق بات کی جانب متوجہ ہو جائے، کامل توجہ سے چشمہِ ہدایت، معدنِ صواب، مصدرِ رشد یعنی: قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ کی طرف گہری نظریں ڈالے، ان شاء اللہ اس پر حق واضح ہو جائے گا اور ٹھوکر لگنے سے بچ جائے گاچنانچہ جب کامیابی مل جائے تو مسئلے کا جواب بتلائے اور لیکن اب بھی اگر کوئی تشنگی باقی رہے تو پھر دوبارہ توبہ و استغفار کرے، بکثرت ذکر الہی کرے تا کہ وہ پردہ بھی بیچ میں سے اٹھ جائے۔
یاد رکھو! علمِ دین نور الہی ہے جو بندوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے لیکن ہوس اور معصیت کی تیز و تند آندھیاں اس نورانی چراغ کو یا تو گُل کر دیتی ہیں یا کم از کم اس کی روشنی کو ماند کر دیتی ہیں۔
میں نے خود دیکھا ہے کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے سامنے جب ایسے مسائل آتے کہ آپ پر گراں گزریں اور آپ کو سخت معلوم ہوں تو آپ اسی وقت فوراً اللہ تعالی کی طرف جھک جاتے تھے ، تو بہ و استغفار کرنے لگتے تھے، اللہ سے فریاد رسی چاہتے، اس کی طرف گڑگڑاتے ، عاجزی کرتے، اسی سے دعا کرتے کہ وہ یہ مسائل ان پر آسان کر دے اور راہِ حق دکھا دے ، نیز ہدایت بھی عطا فرمائے، اور اپنی رحمت کے خزانے کھول دے۔
تو عموماً بلا رکاوٹ اور بلا تاخیر مددِ الہی آ پہنچتی ، بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے رحمتوں کا جھرمٹ سامنے آ جاتا کہ کس کو پہلے موقع دے اور کس کو بعد میں۔
سچ تو یہ ہے کہ جسے ہر حال میں اس طرح دعا کی ہدایت ہو جائے اور جسے ہر وقت خالق کی طرف جھکنا اور اس سے التجا کرنا نصیب ہو جائے اور جس کا دل ایسے تمام مواقع پر اللہ کی طرف جھکنے اور اس کے دامنِ رحمت کا سہارا لینے کا عادی بن جائے اسے اللہ نے اپنا کر لیا ہے اور جو اس خصلتِ خیر ، اس عادتِ نیک سے محروم رہ جائے تو وہ اس مسافر کی طرح ہے جسے نہ راستہ معلوم ہو اور نہ کوئی ساتھ میں ہمسفر ہو۔
جو ایسے مشکل وقت میں اللہ کی طرف جھکے اور پھر حق کو حاصل کرنے میں پوری کوشش کرے وہ صراطِ مستقیم پر لگ گیا ہے، در اصل یہ فضل الہی ہے جس پر اس کی مہربانی ہوتی ہے اسے عطا فرماتا ہے ، بے شک اللہ تعالی بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔” انتہی
” اعلام الموقعین ” (6/67-68) تحقیق مشہور حسن سلمان
اسی طرح ابن عبد الہادی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ:
“بسا اوقات میرے ذہن میں ایک مسئلہ اٹک جاتا یا حالات سنگین بن جاتے تو میں اللہ تعالی سے اتنی دیر تک استغفار کرتا رہتا یہاں تک کہ مجھے اس کا حل مل جائے اور یہ عام طور پر ہزار یا اس کےکم و بیش بار استغفار کرنے پر ہوتا۔
نیز انہوں نے مزید کہا کہ: میں پریشانی کے وقت چاہے بازار میں ہوں یا مسجد میں یا گلی میں یا مدرسے میں کہیں بھی ہوں میں اس وقت تک استغفار کرتا رہتا ہوں جب تک مجھے میری پریشانی کا حل نہ مل جائے” انتہی
” العقود الدرية ” (ص/6)
دوم:
ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایسی کوئی مرفوع دعا نہیں ملی جو قوتِ فہم میں اضافہ کیلیے مخصوص ہو، البتہ کچھ سلف صالحین سے منقول اذکار ہیں یا چند احادیث نبویہ کی عملی تفسیریں ہیں جن میں احادیث کی ذکر کردہ دعاؤں پر عمل کیا گیا ہے، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ احادیث میں اس طرح کی خصوصی دعائیں نہیں ہیں، چنانچہ قوتِ فہم کیلیے کسی کا ان مخصوص دعاؤں کو پڑھنا سلف کا اجتہاد اور ان کا اپنا عمل ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص سلف سے ثابت ان دعاؤں کو پڑھتا ہے اور ان کے بارے میں کوئی خصوصی نظریہ نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے حصولِ قوتِ فہم کے ساتھ مختص کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ ہی ایک جگہ کہتے ہیں کہ:
“فتوی دینے والے کو اکثر یہ دعا پڑھنی چاہیے:
“اَللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ”
ترجمہ: یا اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار! آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، غیب و حاضر کو جاننے والے، لوگوں کے متنازعہ مسائل میں تو ہی فیصلہ کرتا ہے، متنازعہ حق کے بارے میں میری رہنمائی فرما، بیشک تو جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی جانب ہدایت دیتا ہے۔
اور میرے استاد محترم یعنی: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کثرت کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے۔
اور اسی طرح جب انہیں مسائل میں الجھن ہوتی تو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرتے ہوئے کہتے:
“يَا مُعَلِّمَ إِبْرَاهِيْمَ ! عَلِّمْنِيْ “
یعنی: ابراہیم کو سکھانے والے! مجھے بھی سکھا۔
کچھ سلف صالحین فتوی دیتے ہوئے کہا کرتے تھے:
“سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ”
ترجمہ: اللہ تو پاک ہے! ہمارے پاس اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا، بیشک تو ہی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
اسی طرح مکحول رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
“لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ “
ترجمہ: [صحیح فہم کی ] طاقت اور [غلط فہم سے بچنے کی] ہمت [کا تصور] اللہ کے بغیر ممکن نہیں ۔
اور امام مالک رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
“مَا شَاءَ اللهُ ، لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ”
ترجمہ: جو اللہ چاہے [ہمیں سکھاتا ہے، صحیح سمجھنے کی قوت] اللہ بلند و بالا کے بغیر ممکن نہیں۔
کچھ سلف صالحین کہا کرتے تھے:
“رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ ، وَيَسِّرْ لِيْ أَمْرِيْ ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِيْ يَفْقَهُوْا قَوْلِيْ”
ترجمہ: میرے پروردگار! میری شرح صدر فرما، اور میرا معاملہ آسان فرما دے، اور میری زبان کی لکنت کھول دے تا کہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔
کچھ اپنی دعا میں یوں کہا کرتے تھے:
“اَللَّهُمَّ وَفِّقْنِيْ ، وَاهْدِنِيْ ، وَسَدِّدْنِيْ ، وَاجْمَعْ لِيْ بَيْنَ الصَّوَابِ وَالثَّوَابِ ، وَاعْذُرْنِيْ مِنَ الْخَطَأِ وَالحِرْمَانِ “
ترجمہ: یا اللہ! مجھے کامیاب فرما، میری رہنمائی فرما، مجھے سیدھے راستے پر رکھ، میرے لیے درستگی اور ثواب دونوں یکجا فرما دے، اور مجھے غلطی و محرومی سے بچا لے۔
کچھ سورت فاتحہ پڑھتے تھے۔
اور یہ ہمارا مجرب نسخہ ہے کہ درست سمت تلاش کرنے کا مضبوط ترین ذریعہ ہے۔
ان تمام دعاؤں کا انحصار اصل میں اچھی نیت، خالص مقصد اور کامل توجہ پر ہے۔۔۔
امام احمد رحمہ اللہ سے کہا گیا:
اگر آپ کے بعد ہمیں آپ کی شدید ضرورت محسوس ہوئی تو ہم کس سے استفسار کریں؟
تو انہوں نے کہا: عبد الوہاب ورّاق سے پوچھنا، کیونکہ وہ اس بات کا اہل ہے کہ اسے اللہ تعالی کی جانب سے رہنمائی ملے۔
مذکورہ بات کہتے ہوئے امام احمد رحمہ اللہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اقتدا کی ہے انہوں نے کہا تھا: “نیک لوگوں کے قریب رہو اور جو وہ بات کہیں ان کی باتیں غور سے سنا کرو؛ کیونکہ ان کیلیے معاملات حقیقی صورت میں عیاں ہوتے ہیں”
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل اللہ تعالی کے قریب ہوتے ہیں اور جس قدر دل اللہ تعالی کے قریب ہوں گے اللہ تعالی ان سے بری رکاوٹیں زائل کر دے گا، اور ان کی معرفتِ حق کیلیے رہنمائی بدرجہ اتم اور مضبوط ترین ہوگی، بالکل اسی طرح جس قدر دل اللہ تعالی سے دور ہوں گے اس کیلیے بری رکاوٹیں زیادہ ہوں گی، اور صحیح بات تک رسائی بھی اتنی ہی کمزور ہوگی، کیونکہ علم ایک نور ہے جو اللہ تعالی دل میں ڈالتا ہے اور اسی کی بنا پر انسان صحیح اور غلط میں فیصلہ کر تا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے اپنی پہلی ملاقات میں کہا تھا:
“میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالی نے تمہارے دل پر نور ڈال دیا ہے لہذا اسے گناہوں کے ذریعے مت مٹانا “
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَاناً )
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہارے لیے فرقان بنا دے گا۔ [الانفال: 29]
اس آیت میں “فرقان” سے مراد وہ روشنی ہے جس کے ذریعے انسان حق و باطل کے درمیان فرق کر سکے، چنانچہ جس قدر دل اللہ کے قریب ہوگا اس کے پاس حق و باطل میں فرق کرنے کی قوت اتنی ہی زیادہ ہو گی، اللہ تعالی عمل کی توفیق دے” انتہی
” إعلام الموقعین ” (6/197-199)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب