سوال: میرے ذمہ قسم کا کفارہ ہے، میں نے کچھ مزدوروں کے سامنے یہ بات رکھی کہ میں انہیں کھانا کھلانا چاہتا ہوں تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ جتنی قیمت کا کھانا میں انہیں لا کر دوں گا اسی قیمت کا ہمیں مخصوص راشن لا کر دے دوں جو انہیں ایک ماہ کیلئے کافی ہو جائے گا، یہ بات واضح رہے کہ میں عام طور پر میں جو کھانا کھاتا ہوں وہ نوعیت اور قیمت ہر اعتبار سے مطلوب راشن سے اچھا ہے، تو کیا میں ان کی خواہش کے مطابق راشن لا کر دے دوں یا جو کھانا میں عام طور پر کھاتا ہوں وہی انہیں لا کر دوں؟
کیا قسم کا کفارہ ادا کرتے ہوئے ایسا کھانا کھلا سکتا ہے جو وہ خود عام طور پر نہیں کھاتا، لیکن فقراء کو ایک ماہ کیلئے کافی ہوگا؟
سوال: 139050
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قسم کا کفارہ ادا کرتے ہوئے تین میں سے ایک کام کرنا ضروری ہے، غلام آزاد کرنا، دس مساکین کو کھانا کھلانا، یا انہیں کپڑے دینا، اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ )
ترجمہ: اللہ تمہاری مہمل قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ( اگر تم ایسی قسم توڑ دو تو) اس کا کفارہ دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کی پوشاک ہے یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے میسر نہ ہوں وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو ۔ اور (بہتر یہی ہے کہ ) اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو ۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو ۔ [المائدة : 89]
چنانچہ نقدی کی صورت میں کفارہ ادا کرنا جمہور فقہائے کرام کے ہاں جائز نہیں ہے۔
جو شخص کھانے کی شکل میں کفارہ دینا چاہتا ہے وہ کھانے کا وزن کیے بغیر کھانا کھلا سکتا ہے، مثلاً انہیں دوپہر یا رات کا کھانا کھلا دے، یا پھر وزن کر کرے چاول، گندم، یا کھجور وغیرہ دے سکتا ہے، چنانچہ ہر مسکین کیلئے احتیاطاً ڈیڑھ کلو اناج دے، اس کے ساتھ سالن ترکاری کا بھی اہتمام کر دے تو یہ اچھا ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (45676) کا مطالعہ کریں۔
قسم کے کفارے کیلئے اناج اور کھانے کی مقدار کا مسئلہ شریعت میں صراحت کیساتھ بیان نہیں ہوا، بلکہ فقہائے کرام نے اجتہاد کرتے ہوئے قسم کے کفارے کو حج کے کفارے پر قیاس کیا ہے، جیسے کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر مسکین کے لئے آدھا صاع اناج دینے کا حکم دیا، اور آدھا صاع تقریباً ڈیڑھ کلو بنتا ہے۔
نیز چونکہ آیت میں کھانا کھلانے کا ذکر ہے اور لوگ سادہ [ابلے ہوئے]چاول یا صرف گندم کی روٹی نہیں کھاتے بلکہ اس کے ساتھ سالن وغیرہ بھی ہوتا ہے تو اہل علم نے ساتھ میں سالن کا اہتمام بھی مستحب قرار دیا۔
چنانچہ اگر آپ ان فقراء کو ایسا کھانا دے دیں جو عام طور پر آپ نہیں کھاتے ، لیکن پھر بھی وہ درمیانے درجے کے دوپہر اور رات کے کھانے کے برابر بنتا ہے ، یا پھر سالن سمیت ڈیڑھ کلو چاول کے برابر ہو جاتا ہے تو آپ نے اپنے ذمہ واجب ادا کر دیا ہے، کیونکہ حقیقت میں یہ مسئلہ تقریبی ہے، جیسے کہ پہلے اس کا بیان ہو چکا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کھانا کھلانے کی دو صورتیں ہیں :
پہلی صورت: دوپہر یا شام کا کھانا بنائے جو دس مساکین کیلئے کافی ہو، اور پھر ان کی دعوت کردے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مطلق حکم دیا ہے کہ: (إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ) چنانچہ اگر کفارہ ادا کرنے والے نے کھانا بنا کر دوپہر یا شام کا کھانا کھلا دیا تو اس اس آیت پر عمل کر لیا ہے۔
دوسری صورت: وزن کر کرے اناج دے دے، مثلاً ہم ہر مسکین کیلئے ایک کلو چاول رکھیں تو دس مساکین کو دس کلو چاول آئیں گے، ان چاولوں کیساتھ سالن کیلئے بھی کچھ نہ کچھ دے ، تا کہ کھانا کھلانے کی بات پوری ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ) لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ایک کلو اناج دینے کی کیا دلیل ہے؟ ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ : “اتنی مقدار میں کھانا دیں جو فقیر شخص کیلئے کافی ہو”؟
یہاں صحیح بات یہ ہے کہ اناج کے وزن کے بارے میں شریعت خاموش ہے، تاہم کوئی کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ : ہماری دلیل کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں احرام کی حالت میں وقت سے پہلے بال منڈوانے کی اجازت دی تو حکم دیا کہ چھ مساکین کو کھانا کھلائے، اور ہر مسکین کو آدھا صاع دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ہر مسکین کو نصف صاع دینے کی تلقین فرمائی، چنانچہ بقیہ مسائل میں بھی مسکین کو اسی پر قیاس کیا جائے گا، تاہم پھر بھی یہ مسئلہ تقریبی ہی رہے گا، اس میں کوئی مخصوص مقدار نہیں ہے۔
اگر آپ کچھ غور و فکر کریں تو کھانا کھلانے کی تین صورتیں ہیں:
1-کبھی کھانا دینے والا کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، لینے والے کو نہیں
2-کبھی کھانا لینے والے کو مد نظر رکھا جاتا ہے، دینے والے کو نہیں
3-اور کبھی کھانا لینے اور دینے والے دونوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے
پہلی صورت کی مثال :فطرانہ ہے، اس میں ہر شخص کی طرف سے ایک صاع ہے، لیکن یہاں یہ بات نہیں ہے کہ کتنے لوگوں کو دینا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فطرانہ ایک سے زیادہ مساکین کو دیا جا سکتا ہے، اور کئی فطرانے ایک مسکین کو بھی دیے جا سکتے ہیں، کیونکہ یہاں دینے والے کو مد نظر رکھا گیا ہے، لینے والے کو مد نظر نہیں رکھا گیا، دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں اس میں ادا کی جانے والی چیز کی مقدار کو معیار بنایا گیا ہے لینے والے افراد کو معیار نہیں بنایا گیا۔
دونوں کو مد نظر رکھنے کی مثال ، فدیہ الاذی [حج میں لازم ہونے والا مخصوص فدیہ] ہے، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (چھ مساکین کو کھانا کھلائے، ہر مسکین کو نصف صاع دے)
جس میں کھانا وصول کرنے والے فقراء کو معیار بنایا گیا ہے ، اس کی مثال قسم کا کفارہ ہے، یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“شریعت نے اگر قسم کا کفارہ محدد نہیں کیا تو دوپہر یا رات کا کھانا جس طرح سے بھی آپ کھانا کھلا دیں تو کافی ہوگا” انتہی
“الشرح الممتع” (15/160)
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جس طریقے سے آپ نے کفارہ ادا کیا ہے صحیح ہے، اور کافی ہے، بلکہ اس طرح کرنا فقراء کیلئے زیادہ سود مند ہے کہ ان کی ضرورت کی اشیاء آپ لیکر دے رہے ہو۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات