ہمارے ہاں جہاں ميں پيدا ہوا ہوں شادى كے وقت ايك رسم اور عادت ہے جس كے بارہ ميں مجھے شك سا ہے كہ جب كوئى شخص كسى عورت سے شادى كرنا چاہتا ہے تو وہ قبيلے كے سرداروں كو كچھ رقم ديتا ہے، يہ رقم قبيلے كے بڑے افراد ميں تقسيم كى جاتى ہے.
اور يہ مال مہر ميں شامل نہيں ہوتا بلكہ زائد اخراجات ميں شامل كيا جاتا ہے جو مہر ميں شامل نہيں، اور كم از كم پانچ سو ڈالر دينا ضرورى ہيں، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ اس ميں دين اسلام كى رائے كيا ہے ؟
كيا عقد نكاح كے وقت خاوند پر قبيلے كے سرداروں كو كچھ مبلغ كى ادا كرنا لازم ہے ؟
سوال: 140036
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شافعيہ كے ہاں اگر كسى شخص نے عورت سے اس شرط پر شادى كى كہ وہ عورت كے باپ كو ايك ہزار دےگا، يا پھر خاوند اسے ايك ہزار دےگا، تو دونوں صورتوں ميں ہى مہر فاسد ہو جائيگا؛ كيونكہ اس نے شرمگاہ كے مقابلہ ميں بيوى كے علاوہ كسى اور كو مال ديا ہے، اس طرح ان كے ہاں دونوں صورتوں ميں عورت كو مہر مثل حاصل ہوگا، كيونكہ مہر مسمى فاسد ہو چكا ہے.
اور حنابلہ كہتے ہيں: صرف عورت كے باپ كے ليے بيٹى كے مہر سے اپنے ليے كچھ رقم لينے كى شرط ركھنا جائز ہے، اس ليے اگر اس نے بيٹى كى شادى ايك ہزار بيٹى اور ايك ہزار اپنے ليے پر كى تو يہ اتفاق صحيح ہے، اور يہ سارا مہر ہى ہوگا، اس كے سارے مال كى طرح باپ ملكيت كى نيت اور قبضہ كرنے كى صورت ميں ہى اس كا مالك بنےگا، اس كى شرط يہ ہے وہ بيٹى كا مال ہڑپ نہ كر جائے.
اور اگر يہ شرط ركھى جائے كہ سارا يا كچھ مہر باپ كے علاوہ كسى اور كو ملےگا مثلا دادا يا بھائى يا وہ باپ جس كا مالك بننا صحيح نہيں، تو يہ مہر مقرر كرنا صحيح ہوگا ليكن شرط لغو ہوگى، اور سارے كا سارا مہر عورت كو ہى ملےگا كيونكہ اس نے جو شرط ركھى ہے وہ سب شادى كے عوض ميں ہے تو اس طرح يہ عورت كا مہر ہوگا.
ديكھيں: الام ( 5 / 78 ) اسنى المطالب ( 3 / 205 ) الانصاف ( 8 / 248 ) الفقہ الاسلامى و ادلتہ ( 9 / 263 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” لڑكى كے باپ كے ليے جائز ہے كہ وہ بيٹى كے مہر ميں سے اپنے ليے بھى كچھ كى شرط ركھ لے، اسحاق رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، اور مسروق رحمہ اللہ سے مروى ہے كہ جب انہوں نے اپنى بيٹى كى شادى كى تو اپنے ليے دس ہزار كى شرط ركھى اور اسے حج اور مسكينوں ميں خرچ كيا، پھر كہنے لگے: اپنى بيوى كو بھى تيار كرو ”
اسى طرح على بن حسين رحمہ اللہ سے بھى مروى ہے، اور عطاء، طاؤوس، عكرمہ، عمر بن عبد العزيز، ثورى، ابو عبيد كا كہنا ہے، يہ سارا عورت كے ليے ہوگا ”
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر ايسا كرے تو عورت كو مہر مثل ملےگا، اور جو مہر مقرر كيا گيا تھا وہ فاسد ہو جائيگا؛ كيونكہ اس فاسد شرط كى بنا عورت كے مہر ميں كمى ہوئى ہے؛ اور اس ليے بھى كہ مہر تو بيوى كو دينا واجب ہے، اور اس كى شرمگاہ كے عوض ميں ہے، اس طرح وہ مجہول رہےگا، كيونكہ اس شرط كى بنا پر جو مہر ميں كمى ہوئى ہے ہميں وہ پورى كرنا ہے، اور يہ مجہول ہے اس طرح يہ فاسد ہو جائيگا.
اور اگر يہ شرط باپ كے علاوہ كسى اور كے ليے لگائى گئى ہو مثلا دادا يا بھائى يا چچا كے ليے تو يہ شرط ہى باطل ہو گى، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے كہ جو مہر مقرر كيا گيا ہوگا وہ سب عورت كو ملےگا، ابو حفص يہى بيان كرتے ہيں، مسئلہ كے ابتدا ميں ہم نے جن علماء كے نام ذكر كيے ہيں ان كا قول بھى يہى ہے.
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس صورت ميں مہر مثل واجب ہوگا، اور قاضى رحمہ اللہ نے بھى ” المجرد ” ميں يہى بيان كيا ہے ” انتہى مختصرا.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 171 ـ 172 ).
جب يہ واضح ہوگيا كہ باپ كى اپنى بيٹى پر ولايت ہونے اور اس كے نكاح كا باپ كے ہاتھ ميں ہونے كے باوجود اپنے ليے جو شرط ركھے اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور راجح قول يہى ہے كہ مہر ميں باپ اپنے ليے كچھ شرط نہيں لگا سكتا، اور باپ كے علاوہ اگر كوئى دوسرا ولى يہ شرط ركھے تو وہ شرط ہى باطل ہوگى، اس طرح يہ واضح ہوا كہ:
قبيلہ كے سردار اور بڑے يا كوئى دوسرا ولى جو شادى كرانے ميں مال كى شرط ركھتے ہيں اس كا بطلان اظہر من الشمس ہے، اور يہ لوگوں كا ناحق مال ہڑپ كرنے كے مترادف ہے، اور يہ ظالمانہ ٹيكس ہے جو ظالم و جابر لوگوں پر لگا رہے ہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ہمارے ہاں عادت و رسم ہے كہ جب كوئى شخص شادى كرتا ہے تو اس كے ليے شرط ركھى جاتى ہے كہ وہ كچھ مبلغ مثلا بيس ہزار مہر كے علاوہ ادا كرے اور يہ شرط عقد نكاح ميں لكھى جاتى ہے، يہ مبلغ عورت كا باپ يا پھر جو ولى بن كر اس كى شادى كر رہا ہو خود ليتا ہے، ليكن اس ميں سے بيوى كو كچھ نہيں ديا جاتا، كيا يہ جائز ہے يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” اس سوال پر ہمارا جواب يہ ہے كہ: مہر يا كوئى نام كى جو چيز بھى نكاح كے عوض ميں دى جاتى ہے يہ بيوى كى ملكيت ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى كے ساتھ ادا كرو .
لڑكى كے والد يا كسى اور كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس مہر وغيرہ سے اپنے ليے كسى چيز كى شرط ركھے، ليكن جب عقد نكاح ہو جائے اور خاوند اگر كسى سسرالى رشتہ دار كى تكريم كرنا چاہتا ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور اسى طرح جب عقد نكاح مكمل ہو جائے اور بيوى اپنا مہر حاصل كر لے اور لڑكى كا والد اس ميں سے كچھ لينا چاہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تم اور تمہارا مال تمہارے والد كا ہے ”
ليكن عقد نكاح كے وقت يہ شرط ركھنا كہ مہر ميں سے كچھ لڑكى كا باپ يا بھائى يا كوئى اور جو عقد نكاح كا ذمہ دار ہے لےگا حرام ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 10 / 236 ـ 237 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
” باپ يا كسى اور كے ليے جائز نہيں كہ وہ لڑكى كے مہر ميں سے كچھ تھوڑا يا زيادہ اپنے ليے ركھنے كى شرط لگائے، مہر سارے كا سارا بيوى كا حق ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو، پھر اگر وہ اس ميں سے كوئى چيز تمہارے ليے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائيں تو اسے كھا لو اس حال ميں كہ مزے دار و خوشگوار ہے النساء ( 4 ).
يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے مہر كى اضافت عورتوں كى طرف كى ہے، اور اس ميں انہيں تصرف كرنے كا حق قرار ديا ہے.
لہذا جب مہر عورت كا حق ہے، اور اس ميں اسے ہى تصرف كرنے والى بنايا ہے تو پھر مرد يعنى اس كے ولى كے ليے حلال نہيں كہ وہ اس ميں سے كچھ اپنے ليے ركھنے كى شرط لگائے، چاہے وہ ولى باپ ہو يا كوئى اور؛ ليكن جب عقد نكاح ہو جائے اور مہر بيوى كى مليكت ميں آ جائے تو اس كے باپ كو حق ہے وہ جتنا چاہے اسے اپنى ملكيت لے سكتا ہے؛ ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں ملكيت كى وہ شروط پائى جائيں جنہيں اہل علم نے بيان كيا ہے جن ميں ايك شرط يہ بھى ہے كہ عورت كو اس سے نقصان و ضرر نہ ہوتا ہو.
ليكن باپ كے علاوہ كسى دوسرے ولى كو حق حاصل نہيں كہ وہ عورت كے مہر سے كچھ حصہ كا مالك بن سكے، ہاں يہ اور بات ہے كہ عورت عقلمند و رشيدہ ہواور مال ميں تصرف كرنے كى اہليت ركھتى ہو اور اپنى مرضى و رضامندى سے ولى كو كچھ دے.
ميں يہ بات اس ليے كر رہا ہوں تا كہ يہ لالچى اور ڈكارنے والے عورتوں كے مہر كھانے سے باز آ جائيں، ميرا خيال ہے كہ جب ولى كو يہ علم ہو كہ مہر ميں اس كا كوئى حق نہيں، بلكہ يہ خالصتا عورت كا حق ہے، اور اگر اس نے غير شرعى طريقہ سے ايك پيسہ ميں مہر سے ركھا تو وہ گنہگار ہوگا، اور اس كا كھانا حرام ہے، ميرے علم كے مطابق اگر معاملہ ايسا ہى ہو تو ولى كے ليے رشتہ كے ليے آنے والے نوجوان كا رشتہ قبول كرنے ميں آسانى ہو جائيگى، شرط يہ ہے كہ اگر وہ رشتہ مناسب و كفو والا ہو، اور عورت اس رشتہ كو قبول كرنے پر راضى ہو. باقى علم تو اللہ كے پاس ہے.
رہى يہ بات كہ اس طرح كے لالچى اور مال ڈكارنے والے ولى جن كے دل ميں رحم نہيں ہے، اور شفقت ختم ہو چكى ہے وہ مہر سے اپنے ليے بہت زيادہ رقم ركھنے كى شرط لگاتے ہيں ان كے ليے يہ حرام ہے، حلال نہيں.
ہم اللہ تعالى سے اميد كرتے ہيں كہ وہ اس مشكل ميں آسانى پيدا فرمائے ” انتہى باختصار
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 10 / 226 ).
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2491 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات