میں نے اسلامی تعلیمات سیکھنے کے لیے اپنا ملک چھوڑا ، اللہ تعالی نے مجھے ایک بہت ہی اچھے گھرانے تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا جومیراخیال رکھنے والا بنا اللہ تعالی اس خاندان کے افراد کوجزائے خیر عطا فرمائے ۔
اس گھرانے کے والد نے میرے ولی بننے کی ذمہ داری سنبھالی ( اس لیے کہ میری ساری فیملی غیرمسلم تھی ) اوروہ میرے لیے ایک مناسب شخص تلاش کرنے لگا تا کہ میری شادی کی جاسکے ، وہ میری ساری لازمی ضروریات رہائش واورخرچہ اوراسلامی تعلیمات حاصل کرنے وغیرہ کومرتب کرتا رہا ۔
اس دوران کہ ہم سب ہونے والی شادی کے سلسلے میں بات چيت کررہے تھے کہ مذکورہ شخص نے یہ دیکھا کہ میں جن صفات کے حامل شخص کوشادی کے لیے تلاش کررہی ہوں وہ سب اس میں موجود ہیں ، پہلے تواس نے اپنی بیوی کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کی ، اورپھر کچھ ماہ بعد میرے سامنے بھی یہ معاملہ رکھ دیا ۔
لیکن اس کی پہلی بیوی نے واضح طور پر مجھے کہا کہ وہ اس شادی کے خلاف ہے ، کچھ صاحب علم لوگوں کی جوکہ اسے اوراس کے خاندان کوبھی اچھی طرح جانتے تھے اورخود اس کی بھی نصیحت کرنے اورکئي ایک بار استخارہ کرنے کے بعد میں نے ایک مسلمان کواپنا ولی بنا کراس سے شادی کرلی ، تو میرا سوال دو شقوں پر مشتمل ہے :
پہلی بیوی اب یہ دعوی کرتی ہے کہ میرے اوپر اس کے پہلے احسانات کی وجہ سے اسے یہ ساتھ شادی کرنا صحیح نہیں ، وہ یہ بھی کہتی ہے کہ اس سے مشورہ کیے بغیر میں نے شادی کا مطالبہ قبول کرکے ظلم کیا ہے ، اوراس لیے کہ میں نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس شادی پر راضي نہیں اوراسے کوئي سعادت حاصل نہيں ہوگی کے باوجود اس کے خاوند سے شادی کرنا قبول کرلیا ۔
1 – جن امور کا وہ دعوی کررہی ہے کا وہ قابل قبول ہیں ؟
کیا میں نے واقعی اس پر ظلم کیا ہے ، اورکیا میرا اس عورت کے ساتھ دوستی کرنا اورتعلقات رکھنا مجھے اس کے خاوند سے شادی کرنے سے روکتے ہیں ؟
وہ ہماری شادی کے وقت سے اب تک اس بات پر مصر ہے کہ اگراس کا خاوند میرے ساتھ رہتا ہے تواسے طلاق دے دے ، اورمسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے پہلی بیوی سے سات بچے ہیں اورمیرا ابھی تک کوئي بچہ نہیں ، میری طلاق سے اس کی طلاق میں زيادہ فساد اورنقصان ہے ، اس لیے میں نے اپنے خاوند کومجبور کیا ہے کہ وہ مجھے طلاق دے دے حالانکہ میں نے اپنے وقت میں سے بہت سے حقوق بھی چھوڑ دیۓ ہیں اوراس کی یہ شرط بھی تسلیم کرلی ہے کہ اس موضوع کے بارہ میں اس کی اولاد کوعلم نہیں ہونا چاہیے ۔
2 – کیا پہلی بیوی خاوند کومجبور کرسکتی ہے کہ وہ دوسری بیوی کوطلاق دے ؟
خاوند سے اپنی سوکن کو طلاق دینے کا مطالبہ
سوال: 14021
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول :
عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ خاوند سے اس کی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں کہ اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تا کہ اس کے برتن کوفارغ کرکے خود نکاح کرلے ، بلکہ اس کے مقدر میں جوکچھ ہے وہ اسے ملے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5144 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1413 ) مندرجہ بالا الفاظ صحیح بخای کے ہیں ۔
اورایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنی بہن کی طلاق کی شرط رکھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2577 ) ۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کے لیے باب باندھتے ہوئے کہا کہ نکاح میں ناجائز شروط کا باب ۔
ا – حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں ہے کہ عورت اگر اپنی سوکن کی طلاق کی شرط رکھے تویہ باطل ہے ، اوراس کا پورا کرنا واجب نہیں ۔ ا ھـ دیکھیں زاد المعاد لابن قیم ( 5 / 107 ) ۔
ب – حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہت ہيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ حلال نہیں ، اس میں اس شرط کے حرام ہونے کی دلیل ہے ، اوراسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ اگر کوئي ایسا سبب نہ ہو تواسے جائز قرار دے توپھر حرام ہے ، مثلا اسے جائز کے لیے یہ سبب ہوسکتا ہے کہ عورت کے بارہ میں شک ہو کہ وہ خاوند کی عصمت میں رہتی ہوئي شادی چل نہيں سکے گی ۔
اورپھر یہ بھی بطور نصیحت ہو نہ کہ بطور شرط ، یا پھر اسے خاوند سے کوئي نقصان ہو ، یا خاوند کواس سے نقصان ہو تو ۔۔۔ ابن بطال رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حلال کی نفی کرنے سے تحریم کی صراحت ہورہی ہے ، لیکن اس سے فسخ نکاح لازم نہیں ہوتا ، بلکہ یہ توعورت پر سختی ہے کہ وہ اپنی دوسری بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے ، اوراسے اللہ تعالی کی تقسیم پر راضي ہونا چاہیۓ ۔اھـ ۔ دیکھیں فتح الباری ( 9 / 27 ) ۔
ج – امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اجنبی عورت کومنع کیا گيا ہے کہ وہ شادی کرنے کے لیے دوسری بیوی کے خاوند سے اس کی طلاق کا مطالبہ کرے ، اور مطلقہ کی جگہ خود اس سے شادی کرکے اس کا نفقہ اور معاشرت وغیرہ حاصل کرے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مجازی طور پر برتن خالی کرنے سے تعبیر کیا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں شرح مسلم للنووی ( 9 / 193 ) ۔
تواس بنا پر پہلی بیوی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند سے آپ کی طلاق کا مطالبہ کرے ، اورجوکچھ وہ کہتی ہے اس کی طرف متوجہ نہ ہوں ، آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ اس غیرت کی وجہ سے ہے جوعورت میں عمومی طور پر پائي جاتی ہے ، بلکہ یہ تو سب سے افضل عورتوں میں بھی پائي جاتی تھی جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اورامہات المومنین ہیں ، تویہ غیرت ایک طبعی چيز ہے ۔
دوم :
اوراس نے جوکچھ آپ پر احسانات کیے ہیں اس پر تووہ اللہ تعالی کے ہاں ماجور ہے ، لیکن اس کی وجہ سے اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند سے آپ کی طلاق کا مطالبہ کرتی پھرے ۔
آپ صبر وتحمل سے کام لیں ، اوراس کے معاملہ سے تجاھل سے کام لیتے ہوئے منہ پھیر لیں ، اور اپنی استطاعت کے مطابق اس سے احسان اوراچھا برتاؤ کریں ، اورپہلی بیوی کوبھی یہ علم ہونا چاہیے کہ اس کے لیے اللہ تعالی نے جوکچھ مقدر میں لکھ دیا ہے وہ مل کر رہے گا جیسا کہ بخاری کی راویت کردہ حدیث کے آخری حصہ میں بھی بیان کیا گيا ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان کواس قول پر ختم کیا ، بلکہ اس کے لیے توجو اس کے مقدر میں ہے وہ اسے ملے گا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگراس نے اس کا مطالبہ کیا اوراس پر اصرار کیا اوریہ شرط رکھی تو وہ واقع نہیں ہوگی لیکن وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے مقدر کردیا ہے ۔ دیکھیں فتح الباری ( 9 / 275 )۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد