بعض تاجر حضرات كے گاہكوں كے ذمہ موجل قرضے ہوتے ہيں اور يہ تاجر كسى بنك ميں جاكر بنك كو وہ معاہدہ يا اسٹام اس ميں پائى جانے قيمت سے كم قيمت پر فروخت كر كے رقم حاصل كرتے ہيں اور بنك وقت مقررہ پر ان گاہكوں سے پورى رقم وصول كرتا ہے، اس عمل كا حكم كيا ہے ؟
قرضے كى كٹوتى
سوال: 14098
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بنكارى كے نظام ميں اس معاملہ كو ( قرضوں كى كٹوتى ) كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے، اور يہ حرام معاملات ميں سے اور سود كى صورت ميں ميں سے ايك صورت ہے.
كيونكہ وہ مثلا اسٹام يا معاہدہ جس ميں ايك ہزار ہے اور اس كى تاريخ ادائيگى ايك ماہ ہے كو نقد نو سو ميں فروخت كرديتا ہے.
اور يہ سود ہے، بلكہ اس معاملہ ميں تو دو قسم كے سود جمع ہو گئے ہيں ايك تو ادھار كا سود اور دوسرا زيادہ كا سود، يعنى ربا الفضل اور ربا النسيئۃ دونوں ہى جمع ہيں، كيونكہ اس نے نقد اور حاضر كو اسى جنس كے ساتھ ادھار اور زيادہ ميں فروخت كيا ہے.
اور جب دو نقد جنسوں كى نقد كے ساتھ بيع ہو تو مجلس عقد ميں قبضہ واجب اور ضرورى ہے، لہذا اگر دونوں نقد اشياء ايك ہى جنس كى ہوں تو پھر برابرى اور قبضہ ضرورى ہے، جو كہ اس معاملہ ميں نہيں ، اس ليے اس معاملہ ميں برابرى نہ ہونے كى بنا پر رباالفضل ( زيادہ والا سود ) اور قبضہ نہ ہونے كى بنا پر ربا النسيئۃ ( ادھار سود ) جمع ہو گئےہيں.
اس كے بارہ ميں مستقل فتوى كميٹى سے سوال كيا گيا تو اس كا جواب تھا:
( بنك كو كمپيالہ ( معاہدہ نامہ اور بل ) رقم كى ادائيگى كے بدلے ميں فائدہ كے ساتھ فروخت كرنا بائع جو بنك كو دے، اور اسٹام ميں پائى جانے والى رقم كى خريدار سے وصولى بنك كرے سود ہونے كى بنا پر حرام ہے ) اھـ
ديكھيں: فتاوى البيوع ( 352 ).
اور فقہ اكيڈمى كے فيصلوں ميں ہے كہ:
تجارتى اوراق ميں كمى ( كٹوتى ) شرعا ناجائز ہے، كيونكہ يہ سود كى طرف جاتى ہے. اھـ
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب