ايك ماہر سرجن ڈاكٹر روزانہ تقريبا چار سے پانچ آپريشن كرتا ہے، يعنى دوسرے معنوں ميں وہ چار يا پانچ افراد كى زندگيوں كا ذمہ دار ہے، اور روزے ميں اسے مشقت ہوتى ہے وہ تركيز كھو بيٹھتا ہے، اور يہ كام يعنى آپريشن باريك بينى سے عمل چاہتا ہے، تو كيا ڈاكٹر روزہ نہ ركھے، يہ علم ميں رہے كہ سارا سال اس كا يہى كام ہے صرف ہفتہ ميں ايك چھٹى ہوتى ہے ؟
روزے كى حالت ميں ماہر سرجن تركيز كھو بيٹھے تو كيا روزہ نہ ركھے ؟
سوال: 141646
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رمضان المبارك كے روزے ہر عاقل و بالغ اور مقيم و تندرست شخص پر فرض ہيں؛ كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
اے ايمان والو تم پر روزے فرض كيے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض كيے گئے تھے تا كہ تم تقوى اختيار كرو، يہ گنتى كے چند دن ہيں، تو تم ميں سے جو كوئى مريض ہو يا سفر پر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 183 – 184 ).
اور پھر روزہ دين كے پانچ اركان ميں سے ايك ركن ہے جن پر اسلام كى بنياد قائم ہے، جيسا كہ معلوم ہے كہ يہ دين كى ان اشياء ميں شامل ہوتا ہے جس كا علم ہونا ضرورى ہے، اسلامى ممالك ميں ہر چھوٹا اور بڑا اس كى تعظيم پر پرورش پاتا ہے، اور اس كى تعظيم كرنا مسلمانوں كى فطرت ميں شامل ہو چكى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ سن لياتو اب اور سنو! جو كوئى بھى اللہ كے شعائر و نشانيوں حرمت تعظيم كرے يہ اس كے دل كى پرہيزگار كى وجہ سے ہے الحج ( 32 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 38747 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
مسلمان پر واجب ہے كہ وہ اللہ كى تعظيم كرتے ہوئے اس شعار كى بھى تعظيم كرے، اور اس ميں سستى و كاہلى كرنے سے اجتناب كرے، اور اسے قائم كرنے اور اس كى ادائيگى كى ہر ممكن كوشش و سعى كرے جيسا كہ اللہ نے حكم ديا ہے؛ اور اگر اس كے ليے روزے كى حالت ميں كام كرنا مشكل ہو اور مشقت كا باعث بنتا ہے تو اسے چاہيے كہ وہ اپنا كام دن كى بجائے رات كو كر ليا كرے.
جب ايسا كرنا ممكن ہو، اس قسم كے عام آپريشن رات كو كيے جا سكتے ہيں، ليكن ايمرجنسى آپريشن كے علاوہ باقى تو رات كو كرنے ممكن ہيں، جس طرح دن كو ہو سكتے ہيں رات كو بھى ہو سكتے ہيں جيسا كہ بہت سارے ڈاكٹروں كى عادت بھى ہے.
اور اگر اس كے ليے اپنا كام رات كو كرنا ممكن نہيں تو اس كے كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اپنى سالانہ چھٹى رمضان المبارك ميں حاصل كيا كرے، يا پھر اگر ممكن ہو سكے تو كچھ چھٹياں رمضان ميں لے ليا كرے تا كہ روزے كے ليے بالكل فارغ ہو.
اور اگر اس كے ليے ايسا كرنا بھى ممكن نہيں، اور وہ كوئى ايسا دوسرا كا بھى نہيں پاتا جس ميں رمضان المبارك كے روزے ركھ سكے، اور كام چھوڑنے سے اسے نقصان و ضرر ہوتا ہے تو پھر اس كے ليے اس دن روزہ چھوڑنے كى اجازت ہوگى جس ميں اسے بالفعل مشقت ہوتى ہو، يہ نہيں كہ صرف خدشہ كے پيش نظر وہ روزہ ہى نہ ركھے كہ اسے مشقت ہوگى.
اور پھر بعد ميں وہ ان روزوں كى قضاء ہفتہ وار چھٹيوں ميں كر ليا كرے، يا پھر دوسرے دن جس ميں روزہ ركھنا ممكن ہو، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ان روزوں كى قضاء دوسرا رمضان شروع ہونے سے قبل مكمل كر لے.
شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:
" جس شخص كا كام كاج سخت اور شديد ہو اور اسے كام ترك كرنے سے ضرر و نقصان ہوتا ہو، اور اسے ضائع ہونے كا خدشہ ہو تو وہ روزہ نہ ركھے، اور اس كى قضاء كرے، اما آجرى نے يہى بيان كيا ہے " انتہى
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 1 / 478 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" احناف كا كہنا ہے: كاريگر اپنے اخراجات كا محتاج ہے مثلا نانبائى اور كٹائى كرنے والا شخص، جب اسے يہ معلوم ہو كہ اگر وہ اپنا كام كريگا اور اسے كام كى بنا پر نقصان و ضرر ہو گا تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا جائز ہے، ليكن مشقت و ضرر سے قبل اس كے ليے روزہ چھوڑنا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 57 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" مكلف كے ليے رمضان المبارك كا روزہ اس ليے چھوڑنا جائز نہيں كہ وہ كام كاج كرتا ہے، ليكن اگر كام كى بنا پر اسے مشقت اور عظيم ضرر پہنچے جس كى بنا پر اسے روزہ كھولنے پر مجبور ہونا پڑے تو اس ميں كوئى حرج نہيں وہ روزہ كھول لے اور پھر غروب آفتاب تك بغير كھائے پيئے ہى رہے، اور لوگوں كے ساتھ ہى عيد منائے، اور جس دن اس نے روزہ توڑا تھا اس كى قضاء بعد ميں كر لے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 233 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 65803 ) اور ( 132438 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات