ميرے بچے كى عمر ابھى صرف پانچ ہفتے ہے، اور ہم اسے فيڈر كے ذريعہ دودھ پينے كى عادت ڈالنا چاہتے ہيں، كيا شرعا ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
اور اگر ماں بغير كسى سبب كے اپنا دودھ نہيں پلاتى تو كيا وہ گنہگار ہوگى يا نہيں ؟
كيا ماں كے ليے اپنے بچے كو دودھ پلانا ضرورى و اجب ہے ؟
سوال: 142055
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
والد پر واجب ہے كہ وہ اپنے چھوٹے بچے كو خوراك مہيا كرے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ مرد جس كا بچہ ہے اس كےذمے معروف طريقہ كے مطابق ان عورتوں كا كھانا اور ان كا كپڑا ہے البقرۃ ( 233 ).
چنانچہ اگر بچہ ابھى دودھ پيتا ہو تو اس كى رضاعت كے اخراجات اس كے باپ كے ذمہ ہونگے، اور وہ بچے كو دودھ پلانے والى عورت كو اخراجات ادا كرنا ہونگے، پہلے دور ميں تو يہى رواج اور عادت تھى.
ماں پر واجب نہيں ہے كہ وہ بچے كو اپنا دودھ پلائے؛ ليكن اگر وہ بچہ كسى اور كا دودھ نہيں پيتا تو اس صورت ميں ماں پر اسے اپنا دودھ پلانا لازم ہے، اور اگر نہيں پلاتى تو وہ گنہگار ہوگى.
شرح منتھى الارادت ميں درج ہے:
” اگر بچہ كسى دوسرى عورت كا دودھ قبول نہيں كرتا اور نہ دوسرا دودھ پيتا ہے، اور بچے كے تلف ہونے كا خطرہ ہو تو ہلاكت سے بچانے كے ليےآزاد عورت پر اسے اپنا دودھ پلانا لازم ہے، جيسا كہ اگر كوئى اور عورت نہ پائى جاتى ہو، اور اسے دودھ پلانے كى اجرت بھى حاصل ہوگى، ليكن اگر بچے كے تلف ہونے كا خدشہ نہيں تو پھر اسے دودھ پلانے پر مجبور نہيں كيا جا سكتا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم آپس ميں تنگى كرو تو عنقريب اسے كوئى اور عورت دودھ پلا دےگى الطلاق ( 6 ). انتہى بتصرف
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 243 ).
اسى طرح اگر خاوند اسے دودھ پلانے كا حكم دے تو راجح قول كے مطابق عورت كے ليے بچے كو دودھ پلانا واجب ہوگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” مؤلف كے كلام سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ عورت پر يہ لازم نہيں؛ چاہے عورت ابھى خاوند كے نكاح ميں ہو يا پھر اس سے عليحدہ ہو چكى ہو ”
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بلكہ جب عورت خاوند كے عصمت و نكاح ميں ہو تو اس پر بچے كو دودھ پلانا واجب ہے.
شيخ نے جو كہا ہے وہ زيادہ صحيح ہے، ليكن اگر بچے كے والدين كسى دوسرى عورت سے دودھ پلانے پر رضامند ہوں تو پھر كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر خاوند كہتا ہے كہ تم نے ہى اسے دودھ پلانا ہے تو اس صورت ميں بيوى كے ذمہ بچے كو دودھ پلانا واجب ہو گا، چاہے كوئى دوسرى بھى دودھ پلانے والى موجود ہو، يا پھر اس كے ليے مصنوعى دودھ بطور خوراك مل جائے، اور خاوند كہے كے تم نے ہى ضرور اسے دودھ پلانا ہے، تو بيوى كے ليے بچے كو دودھ پلان لازم ہوگا.
كيونكہ خاوند كے ذمہ اخراجات ہيں، اور جيسا ہم بيان كر چكے ہيں كہ يہ اخراجات زوجيت و رضاعت كے بدلے ميں ہيں.
اور اگر خاوند اسے كہتا ہے كہ: ميں اسے مصنوعى دودھ پلانا پسند كرتا ہوں؛ كيونكہ اس ميں بيمارى وغيرہ كے دور كا شائبہ بھى نہيں، اور بيوى اسے جواب دے كہ: بلكہ بچے كو ميں خود اپنا دودھ پلاؤنگى، تو يہاں بيوي كا حق ہے، اور خاوند كو اسے منع كرنے كا حق حاصل نہيں ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 517 ).
اس بنا پر جب خاوند اور بيوى راضى ہو تو بچے كو مصنوعى دودھ پلانا جائز ہے، اس صور ميں ماں گنہگار نہيں ہوگى، اور اگر بچہ يہ دودھ قبول نہيں كرتا اور اسے دودھ پلانے والى كوئى دوسرى عورت بھى نہيں تو اس حالت ميں ماں پر دودھ پلانا واجب ہو جائيگا، تا كہ اس كى جان كى حفاظت كى جا سكے.
دوم:
والدين اپنے بچوں اصلى اور نيچرل دودھ پلانے كى كوشش كريں، يعنى چاہے ماں كا دودھ ہو يا كسى دوسرى عورت كا؛ كيونكہ اس دودھ ميں بہت سارے فوائد پائے جاتے ہيں جو مصنوعى دودھ ميں نہيں، ذيل ميں ہم چند ايك فوائد پيش كرتے ہيں:
1 ـ ماں كا دودھ مكمل محفوظ اور ہر قسم كے جراثيم سے پاك ہوتا ہے.
2 ـ ماں كے دودھ كا كوئى دوسرا دودھ مقابلہ نہيں كر سكتا چاہے گائے كا ہو يا بكرى كا يا اونٹ كا يا كوئى اور مصنوعى دودھ، اس ليے كہ ماں كا دودھ بچے كى ہر يوم كى ضرورت كو پورا كرتا ہے؛ حتى كہ دودھ چھڑانے كى عمر تك بچے كو جس تبديلى كى ضرورت ہوتى ہے اللہ نے ماں كا دودھ اس كے مطابق پيدا كيا ہے.
3 ـ ماں كے دودھ ميں بچے كى عمر كے مطابق پروٹين اور شوگر پائى جاتى ہے؛ ليكن اس كے مقابلہ ميں گائے بكر اور بھينس وغيرہ كے دودھ ميں ايسى پروٹين پائى جاتى ہے جو بچے كے ليے ہضم كرنا مشكل ہوتى ہے، كيونكہ يہ دودھ تو اللہ نے ان جانوروں كے بچوں كے ليے تيار كر ركھا ہے.
4 ـ ماں كا دودھ پينے والے بچوں كى نشو و نما تيزى سے اور كامل ہوتى ہے، ليكن اس كے مقابلہ ميں فيڈر سے مصنوعى دودھ پينے والے بچوں كى نشو ونما صحيح نہيں ہوتى.
5 ـ ماں كا دودھ پينے سے ماں اور بچے ميں نفسياتى اور رحمدلى كا ارتباط پايا جاتا ہے.
6 ـ ماں كے دودھ ميں بچے كے جسم اور عمر كے مطابق مختلف ضرورى اشياء و عناصر پائے جاتے ہيں، جو بچے كے نظام ہضم كے مطابق ہوتے ہيں، اور دودھ ميں بچے كى ضرورت كے مطابق روزانہ تبديلى پيدا ہوتى رہتى ہے.
7 ـ ماں كا دودھ ايك مناسب درجہ حرارت ميں محفوظ رہتا ہے جو خوبخود بچے كى ضروريات پورى كرتا ہے، اور كسى بھى وقت اس كا حصول ممكن ہے.
8 ـ بچے ماں كے پستان سے براہ راست دودھ پلانا ماں كے ليے مانع حمل اسباب ميں سے ايك سبب ہے، اور يہ چيز باقى مصنوعى اشياء يعنى مانع حمل گولياں، يا انجيكشن يا ٹيوب وغيرہ سے بہتر اور سليم ہے ” انتہى
ديكھيں: توضيح الاحكام ( 5 / 107 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب