كيا خاوند كا بيوى كے ساتھ جھوٹ بولنا خلع حاصل كرنے كا سبب بن سكتا ہے، ميں نے شادى سے قبل بيوى كے ساتھ جھوٹ بولا كہ ميرے والدين فوت ہو چكے ہيں حالانكہ وہ زندہ تھے. ؟
بيوى كے ساتھ اپنے والدين كے بارہ ميں جھوٹ بولا تو بيوى نے خلع كا مطالبہ كر ديا
سوال: 142326
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جھوٹ بولنا برے اور رذيل اخلاق ميں شامل ہوتا ہے، اور جھوٹ ہر شر و برائى كى جڑ اور كنجى ہے، اور جو شخص اپنا گھر بنانا چاہے يا ايك مسلمان خاندان كى بنياد ركھنا چاہے تو يہ جھوٹ اس كے ليے ايك غلط قسم كى اساس ہے.
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم صدق و سچائى كو لازم پكڑو، كيونكہ سچائى نيكى كى طرف لےجاتى ہے، اور نيكى جنت كى راہنمائى كرتى ہے، ايك شخص ہميشہ سچ بولتا رہتا ہے، اور سچ كى تلاش كرتا ہے حتى كہ وہ اللہ كے ہاں صديق لكھ ديا جاتا ہے.
اور تم جھوٹ و كذب بيانى سے بچ كر رہو، كيونكہ جھوٹ فجور كى طرف لےجاتا ہے، اور فجور آگ كى طرف لے جانے كا باعث ہے، ہميشہ آدمى جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ تلاش كرتا ہے حتى كہ اللہ كے ہاں جھوٹا اور كذاب لكھ ديا جاتا ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6094 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2607 ).
ليكن يہ ہے كہ اس خاوند نے جس غلطى كا ارتكاب كيا يہ جائز نہيں تھى اور نہ ہى يہ اكيلى كافى سبب بن سكتى ہے كہ عورت اپنا گھر تباہ كرنے كى كوشش كرنا شروع كر دے، اور اگر كوئى شرعى يا عقلى يا صحت يا معاشرتى طور پر كوئى قابل اطمنان سبب نہ ہو تو عورت طلاق يا خلع كا مطالبہ كر كے اپنے خاندان كو ختم كر دے.
جب بيوى كے ليے خاوند ميں كوئى ايسا عيب ظاہر نہيں ہوا جو اس كے اخلاق يا دين ميں عيب شمار ہوتا ہو، يا پھر اس كے ساتھ معاشرت ميں خلل كا باعث بنے تو اس كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں.
ہو سكتا ہے خاوند نے جس غلطى كا ارتكاب كيا ہے اس كا كوئى سبب ہو، اور اس سلسلہ ميں اس كے ساتھ انتہائى يہى ہو سكتا ہے كہ اسے اپنى غلطى كا احساس دلايا جائے، اور اس نے جھوٹ جيسے جرم كا ارتكاب كرنے كى جو جرات كى ہے اس كے خطرہ كى طرف توجہ مبذول كرائى جائے.
اس ليے اگر وہ اپنى بيوى كے ساتھ صحيح رہتا ہے اور اپنے دين اور معاشرت ميں بھى اصلاح كرتا ہے تو پھر بيوى كو ايسا نہيں كرنا چاہيے كہ وہ اس چيز كو لے كر اپنا گھر تباہ كرنے كى كوشش كرے، اور خاص كر جب اس كے والدين كى موت ميں بيوى كى كوئى مصلحت بھى نہيں ہے، اور نہ ہى اس كے والدين كے زندہ ہونے ميں اسے كوئى نقصان اور ضرر ہے.
سب كچھ يہ ہے كہ اس كے ليے خاوند كے والدين كے ساتھ رہنا لازم اور ضرورى نہيں، اور نہ ہى اس كا ساس اور سسر كے گھر ميں ان كے ساتھ رہائش ركھنا ضرورى ہے، تو اس طرح يہ معاملہ ختم ہو جائيگا.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو تك حرام ہے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) امام ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے.
مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” الباس سے مراد شدت اور سختى ہے، يعنى بغير كسى سختى اور شدت كى حالت كے جو اسے عليحدگى پر آمادہ كرتى ہو كے علاوہ طلاق طلب كرنا حلال نہيں، مثلا عورت كو خدشہ ہو كہ وہ اس كے ساتھ رہتے ہوئے اللہ كى حدود كو قائم نہيں ركھ سكتى كہ اس پر جو حسن صحبت اور بہتر معاشرت كے ساتھ رہنا واجب ہے وہ خاوند كو ناپسند كرنے كى بنا پر اسے اچھے طريقہ سے ادا نہيں كر سكتى، يا پھر خاوند اسے ضرر ديتا ہے تا كہ وہ عورت اس سے خلع حاصل كر لے.
تو اس صورت ميں اس عورت پر حرام ہے، يعنى اسے جنت كى خوشبو بھى حاصل نہيں ہو گى ” انتہى
ديكھيں: فيض القدير ( 3 / 178 ).
تو اس عورت كو كونسى ايسى تكليف اور سختى پہنچى ہے كہ خاوند كے والدين زندہ ہيں ؟!!
بلكہ اگر بيوى نے يہ شرط بھى ركھى ہوتى كہ خاوند كے والدين نہ ہوں تو بعد ميں پتہ چلا كہ اس كے والدين تو زندہ ہيں پھر بھى اس عجيب و غريب شرط كى بنا پر نكاح فسخ كرنا جائز نہيں!!
البھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور اگر عورت كوئى ايسى شرط ركھے جو مذكور كے علاوہ ہو يعنى آزادى اور نسب سے، جو كفؤ ميں شمار نہيں ہو مثلا خوبصورتى وغيرہ تو بعد ميں ظاہر ہوا كہ وہ تو اس صفت سے كم درجہ ركھتا ہے تو اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر عورت كو كوئى اختيار حاصل نہيں ”
( يعنى اوپر جو بيان ہوا ہے كہ يہ نكاح صحيح ہونے ميں معتبر نہيں، اس كى مثال يہ ہے كہ اگر عورت نے شرط ركھى كہ وہ فقيہ ہو ليكن بعد ميں پتہ چلا كہ وہ ايسا نہيں ).
ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 102 ).
چنانچہ ـ پہلے تو ـ بيوى كو يہ نصيحت ہے كہ وہ خلع كا مطالبہ كرنے ميں اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرے، اور خاوند كو فرصت اور موقع دے جس نے اس كے ساتھ جھوٹ بولا تھا، اور اگر اس كى جانب سے كچھ زيادتى اور كمى و كوتاہى ہوئى ہے تو پھر اس كے ليے معافى و درگزر كى وسعت موجود ہے، اور اللہ عزوجل بھى لوگوں كو معاف كرنے اور ان سے درگزر كرنے والوں سے محبت كرتا ہے، اور اگر يہ معافى و درگزر خاوند اور بيوى كے مابين ہو تو اور بھى زيادہ افضل اور زيادہ اجروثواب كا باعث ہے.
پھر ـ دوسرى ـ نصيحت خاوند كو ہے كہ وہ اپنے اس جھوٹ پر اللہ سبحانہ و تعالى سے توبہ و استغفار كرے، كيونكہ يہ جھوٹ اور كذب بيانى سب سے بڑ گناہ اور مومن كے ليے شنيع جرم ہے، اور ہو سكتا ہے اس شنيع اور عظيم جرم كى سزا ميں اسے بيوى كى مخالفت اور عليحدگى كى صورت ميں دكھائى جا رہى ہے.
اور ہر مسلمان شخص كو علم ہونا چاہيے كہ جب جھوٹ اور كذب بيانى اسے نجات دے سكتى ہے تو پھر سچائى اور صدق بيانى تو اس كے مقابلہ ميں زيادہ نجات اور كاميابى كا باعث ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب