وہ کون سی شرائط ہیں جس کی وجہ سے مسلمان کا کیا ہوا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول ہوتا ہے، اور مسلمان اللہ تعالی سے اجر پاتا ہے؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ قبولیتِ عمل کے لیے نیت کا کس حد تک کردار ہے؟
اللہ تعالی کے ہاں بندے کی عبادات کی قبولیت کے لیے اور ان پر اجر دئیے جانے کے لیے دو شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
پہلی شرط: عبادات میں اللہ تعالی کے لیے اخلاص ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
ترجمہ: اور انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ عبادت اللہ کے لیے مخلص کرتے ہوئے اسی کی بندگی کریں ۔[البينة:5]
فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى (19) إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى
ترجمہ: وہ کسی کے احسان کا بدلہ دینے کے لیے عمل نہیں کرتا، وہ تو صرف بلند و بالا رب کی رضا چاہتا ہے۔ [الليل: 19]
فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا
ترجمہ: ہم تمہیں اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں، ہمیں تم سے بدلہ اور نہ ہی شکریہ مطلوب ہے۔[الانسان: 9]
فرمانِ باری تعالی ہے: مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ
ترجمہ: جو آخرت کا بدلہ چاہے تو ہم اسے بڑھا کر بدلہ دیں گے، اور جو دنیا کا بدلہ چاہے تو ہم اسے دنیا ہی دیں گے، لیکن آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔[الشوری: 20]
فرمانِ باری تعالی ہے: مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ: جو دنیا کی زندگی اور دنیاوی زیب و زینت چاہتا ہے تو ہم انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دنیا میں ہی دے دیں گے اور انہیں اس میں کسی خسارے کا سامنا نہیں ہو گا۔ [15] یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں صرف آگ ہے، اور دنیا میں کیا ہوا سب ضائع ہو گیا، اور جو بھی انہوں نے عمل کیے سب کالعدم ہو گئے۔ [ھود: 15 - 16]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یقیناً اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے، اور ہر شخص کو اسی کا اجر ملے گا جس کی اس نے نیت کی تھی، چنانچہ جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو، یا کسی خاتون سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہو گی۔) اسے بخاری نے (آغازِ وحی: 1)میں روایت کیا ہے۔
جب کہ صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں شراکت داری کے حوالے سے تمام شریکوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سے بے نیاز ہوں، جو کوئی بھی عمل کرتے ہوئے میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے تو میں اس عمل اور شریک دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں۔) اسے مسلم : (5300) نے روایت کیا ہے۔
دوسری شرط: عبادت کا عمل اللہ تعالی کے عبادت کے لیے مقرر کردہ شرعی طریقے کے مطابق ہو ، یعنی شرعی احکامات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مسترد ہے۔) اسے مسلم : (3243) نے روایت کیا ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث اسلامی اصولوں میں سب سے اعلی ترین اصول پر مشتمل حدیث ہے، چنانچہ یہ حدیث اعمال کی ظاہری ساخت کے لیے اسی طرح میزان کا کام کرتی ہے جیسے کہ إنما الأعمال بالنيات والی حدیث اعمال کی باطنی ساخت کے لیے میزان کا کام کرتی ہے۔ لہذا جس طرح جس عمل کے ذریعے بھی اللہ تعالی کی رضا مقصود نہ ہو ، تو ایسے عمل کرنے والے کے لیے کوئی ثواب نہیں ہو گا؛ اسی طرح جو عمل اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہو گا وہ بھی مسترد اور کالعدم ہو گا۔ ایسے ہی دین میں خود ساختہ اضافے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت نہیں دی ان کا بھی دین میں کوئی شمار نہیں ہے۔ " ختم شد
جامع العلوم و الحکم: جلد 1، صفحہ: 176
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنت اور طریقے پر چلنے اور اسی پر کار بند رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: (تم میری سنت کو لازم پکڑو، اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اور اس پر اپنی ڈاڑھوں سے کاٹ لو۔)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بدعات سے متنبہ اور خبردار کرتے ہوئے فرمایا: (اپنے آپ کو نت نئے امور سے بچاؤ؛ کیونکہ دین میں ہر نیا کام گمراہی ہے۔) اس حدیث کو ترمذی : (2600)نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ترمذی: (2157) میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اخلاص اور اتباع سنت کو قبول عمل کا سبب قرار دیا ہے، چنانچہ اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوئی تو اعمال قبول نہیں ہو ں گے۔" ختم شد
الروح: (1/135)
فرمانِ باری تعالی ہے: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ترجمہ: اللہ وہ ذات ہے جس نے موت اور حیات پیدا کیے ہیں تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔[الملک: 2] فضیل بن عیاض کہتے ہیں: اچھے عمل کا مطلب جو خالص ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ اللہ تعالی ایسے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم