كيا كسى مسلمان عورت كے ليے غير اسلامى عدالتوں كے ذريعہ طلاق حاصل كرنے كى كوشش كرنا جائز ہے، كيونكہ عورت كو اسلامى طور پر بالفعل طلاق دى جا چكى ہے اور وہ اپنى عدت پورى كر رہى ہے، تو كيا وہ دوبارہ عدالت كے ذريعہ طلاق حاصل كر سكتى ہے ؟
غير شرعى عدالتوں اور سول كورٹ سے طلاق كى توثيق كرانا
سوال: 142953
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے كہ جب عورت كو شرعى طور پر طلاق ہو چكى ہو اور وہ اسے سول كورٹ يعنى غير شرعى عدالت سے توثيق كرانا چاہے اور اس كے ملك اور علاقے ميں شرعى عدالت نہ ہو تو ايسا كرنا جائز ہے؛ كيونكہ طلاق كى توثيق كے نتيجہ ميں عورت كے حقوق كا ثبوت ملتا ہے، اور آئندہ مستقبل ميں نزاع اور جھگڑے سے نجات حاصل ہوگى اور وہ دوسرى شادى بھى كر سكےگى، اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك مصلحتيں پائى جاتى ہيں.
فقھاء شريعت كمپليكس امريكہ كى دوسرى كانفرنس جو كوپن ہيگن ڈنمارك ميں رابطہ عالم اسلامي كے تحت 4 – 7 جمادى الاول 1425 ھـ الموافق 22 – 25 جون 2004 ميلادى ميں منقد ہوئى اس كا اختتامى بيان يہ تھا:
جب مرد اپنى بيوى كو شرعى طلاق دے دے تو اس كے ليے ان غير شرعى عدالتوں سے طلاق توثيق كرانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن جب خاوند اور بيوى كا طلاق كے متعلق آپس ميں جھگڑا اور تنازع ہو تو پھر شرعى عدالت نہ ہونے كى صورت ميں قانونى كاروائى پورى كرنے كے بعد اسلامى مراكز شرعى عدالت كے قائم مقام ہونگے.
اور شادى كو ختم كرنے كے ليے صرف يہ قانونى كاروائى مكمل كرنے سے ہى شرعى طور پر شادى ختم نہيں ہوگى ” انتہى.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر (127179 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات