ہمارے ملک میں قربانی کی قیمت 1200 ریال یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے، پھر اس پر آنے والے اخراجات بھی بہت زیادہ ہو جاتے ہیں جو کہ صاحب استطاعت شخص کے بس کی بات بھی نہیں ہوتے۔
تو کیا یہی قیمت ایسے اداروں کو دے سکتے ہیں جو ملک سے باہر 200 یا 300 ریال میں قربانی کر دیں یعنی ایک قربانی کی قیمت میں 3 قربانیاں ہو جائیں، تو کیا بیرون ملک یہ تین قربانیاں اندرون ملک ایک قربانی سے اجر میں افضل ہیں یا نہیں؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
سائل کے ملک میں قربانی بہت مہنگی ہے، تو کیا کسی دوسرے علاقے میں قربانی کرنے کیلیے رقوم منتقل کر دے؟
سوال: 143611
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قربانی کیلیے سنت یہی ہے کہ مسلمان اپنے علاقے میں ہی قربانی ذبح کرے، اس کی وجہ سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ اگر مسلمان رفاہی اداروں کے ذریعے رقوم دے کر دوسرے علاقے میں قربانی کروائے تو قربانی سے متعلقہ کافی عبادات بھی فوت ہو جاتی ہیں۔
1-شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کچھ لوگ ہیں جو اپنی طرف سے دیگر علاقوں میں قربانیاں کرنے کیلیے پیسے خرچ کرتے ہیں، یہ غلط ہے! کچھ لوگ “اسلامک ریلیف آرگنائزیشن” یا دیگر ایسے اداروں کو رقوم جمع کرواتے ہیں جو ان کی طرف سے دیگر علاقوں میں قربانیاں کرتے ہیں، ایسا شخص قربانی نہیں کرتا! قربانی [اپنے] علاقے میں ہونی چاہیے۔
اللہ کی یہ نعمت ہے کہ اللہ تعالی نے جب حجاج کو ہدی کا جانور ذبح کرنے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ عید کے دن قرب الہی کی جستجو میں جانور ذبح کریں تو جو لوگ حج نہیں کر رہے ان کیلیے عید کی قربانی کو شرعی عمل قرار دیا تا کہ عام لوگ بھی حجاج کرام کے ساتھ اللہ تعالی کے شعائر کی ادائیگی میں شریک ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ )
ترجمہ: اور ہدی کے جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کر دیا۔[الحج:36]
چنانچہ اگر قربانی کرنے کا اصل مقصد ہی یہ ہے تو پھر ہم ہر شخص سے کہیں گے: اپنے گھر سے باہر قربانی مت کریں، اپنے ملک میں قربانی کریں، اس اسلامی شعیرہ کو اپنے علاقے میں اجاگر کریں، چنانچہ قربانی کے پیسے کسی دوسرے علاقے میں بھیجنا سنت سے متصادم ہے، اس سے بہت سے فوائد چوک جاتے ہیں، میں ان میں سے کچھ ذکر کرتا ہوں:
اول: اللہ تعالی کے شعائر میں سے ایک شعیرہ یعنی قربانی آپ کے علاقے میں اجاگر نہیں ہوتا۔
دوم: آپ کو جانور ذبح کر کرے قربِ الہی کا موقع نہیں ملتا؛ کیونکہ قربانی میں شرعی طریقہ تو یہی ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرے، اگر خود ذبح نہیں کر سکتا تو علمائے کرام کہتے ہیں کہ : ذبح کے وقت وہاں پر موجود ہو۔ لیکن پیسے دوسرے ملک منتقل کرنے پر وہ ایسا نہیں کر سکتا۔
سوم: آپ قربانی پر اللہ کا نام نہیں لے سکیں گے؛ کیونکہ اگر آپ اپنے علاقے میں قربانی کر رہے ہیں تو پھر آپ ہی اس پر اللہ کا نام لے کر قربانی کریں گے، اس فائدے کی جانب اللہ تعالی نے اس آیت میں اشارہ بھی فرمایا ہے:
( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ )
ترجمہ: اور ہر امت کیلیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا تا کہ وہ اللہ کا نام ان جانوروں پر لیں جو اسی نے انہیں عطا کیے ۔[ الحج:34]
جبکہ آپ اپنی قربانی کسی دور دراز علاقے میں بھیج دیتے ہیں جس کے بارے میں آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ کیا اس پر اللہ کا نام لیا جائے گا یا نہیں۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ آپ اس پر خود اللہ کا نام نہیں لے سکیں گے۔
چہارم: آپ خود بھی اس قربانی میں سے کھا نہیں سکیں گے؛ کیونکہ اگر آپ کی قربانی “بوسنیا اور ہرزیگوینا” اور “چیچنیا” اور “صومالیہ” یا کسی اور علاقے میں ذبح ہوئی تو کیا آپ کیلیے ممکن ہو گا کہ اپنی قربانی کا گوشت تناول کریں؟! ممکن نہیں ہوگا، اس لیے آپ اس میں سے نہیں کھا سکیں گے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے بارے میں بھی واضح ارشاد فرمایا ہے:
( فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )
ترجمہ: پس قربانی کے گوشت میں سے کھاؤ اور نادار فقیروں کو بھی کھلاؤ۔[الحج:28 ]
ایک اور مقام پر فرمایا: ( فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ )
ترجمہ: پس قربانی کے گوشت میں سے کھاؤ اور سائلین سمیت سفید پوش غریبوں کو بھی کھلاؤ۔[الحج:36]
ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے پہلے خود کھانے کا ذکر فرمایا ہے، اور اسی وجہ سے بعض علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے، جیسے کہ قربانی کا گوشت صدقہ کرنا واجب ہے اسی طرح اسے کھانا بھی واجب ہے۔ اور اگر قربانی کسی اور ملک میں کی جائے تو یہ عمل یقینی طور پر چوک جائے گا۔
پنجم: قربانی کے گوشت کی مطلوبہ تقسیم بھی نہیں ہو سکے گی؛ کیونکہ قربانی کے گوشت کو خود کھانا، ہدیہ دینا اور صدقہ کرنا بھی مطلوب و مقصود ہے۔ اور باہر قربانی کرنے کی وجہ سے اس طرح تقسیم نہیں ہو سکے گی، اگر وہاں پر تقسیم کر بھی دیا گیا تو ہمیں کیا معلوم کہ وہ غریبوں میں تقسیم کیا گیا ہے یا امیر لوگوں کو تحفے میں دیا گیا یا غیر مسلموں میں بانٹا گیا؟!
ششم: آپ اپنے اہل علاقہ کو ان قربانیوں کے گوشت سے محروم کرتے ہیں ، اگر آپ کے علاقے میں قربانی ہو تو آپ اپنے پڑوسیوں، دوستوں کو بھی قربانی کا گوشت پہنچاتے ہیں، اپنے علاقے کے غریب لوگوں میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں، لیکن اگر قربانی بیرون ملک ہوئی تو یہ سب کچھ چوک جائے گا۔
ہفتم: آپ کو علم نہیں ہے کہ کیا یہ قربانی بالکل صحیح انداز سے ذبح کی جائے گی یا کسی اور طریقے سے؟ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی جائے، یا ایام تشریق سے بھی مؤخر کر دی جائے، یا ذبح کرنے والا تسمیہ نہ پڑھے، یہ تمام احتمالات درست ہو سکتے ہیں، لیکن جب قربانی آپ اپنے پاس کریں گے تو اس انداز سے قربانی ذبح ہو گی جیسے آپ چاہیں گے اور افضل ترین طریقے پر قربانی ذبح ہو گی۔
مذکورہ بالا تمام وجوہات کی بنا پر ہم آپ کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ آپ بیرون ملک قربانی کیلیے رقم منتقل مت کریں، بلکہ آپ اپنے علاقے میں خود ذبح کریں، نیز ہم یہ بھی نصیحت کریں گے کہ اگر کسی کے پاس وافر مال ہے تو وہ اپنے محتاج بھائیوں پر کسی بھی اسلامی ملک میں خرچ کر سکتا ہے، لیکن یہ خیال رہے کہ اس کی قربانی غلو اور کمی کوتاہی سے پاک ہونی چاہیے۔
ماخوذ از: “اللقاء الشهري “سلسلہ نمبر: (26 )
2- شیخ صالح فوزان حفطہ اللہ کہتے ہیں:
“مسلمانو! صاحب استطاعت شخص کیلیے عید کی قربانی سنت مؤکدہ ہے، اسے گھر میں ذبح کرنا چاہیے، گھروں میں ان کا گوشت بھی کھائیں اور اپنے پڑوسیوں کو ہدیہ بھی کریں، اپنے آس پاس کے غریبوں میں صدقہ بھی کریں۔
لیکن کچھ لوگوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے کہ رفاہی اداروں کو قربانی کی رقم دے دی جاتی ہے کہ قربانی کرنے والے کے گھر سے دور بیرون ملک میں ان کی طرف سے قربانی کی جائے تو یہ سنت کے خلاف ہے، بلکہ یہ عبادت کو تبدیل کرنے کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس طریقے کو نہ اپنائیں، قربانی گھروں میں ذبح کی جائے اور قربانی کرنے والے شخص کے شہر میں ذبح ہو جیسے کہ احادیث میں یہ واضح موجود ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر اب تک تمام مسلمانوں کا یہی عمل رہا ہے لیکن اب یہ نیا طریقہ ایجاد ہو گیا ہے، مجھے قوی خدشہ ہے کہ یہ بدعت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت کے بارے میں فرمایا: (جو شخص ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے: (اپنے آپ کو نت نئے امور سے بچاؤ؛ کیونکہ [دین میں] ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)
تاہم اگر کوئی شخص ضرورت مند لوگوں پر صدقہ کرنا چاہتا ہے تو صدقے کا دروازہ کھلا ہے، لیکن اتنا ضروری ہے کہ صدقہ کرنے کے نام پر کسی عبادت کا شرعی طریقہ تبدیل نہ کر دیا جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: اور تمہیں رسول جو دے اسے لے لو اور جس سے تمہیں منع کرے اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ [الحشر: 7]” انتہی
ماخوذ از: “مجلہ الدعوہ ” شمارہ نمبر: ( 1878 ) مؤرخہ: 27 / 11 / 1423 ہجری۔
اور اگر قربانی کا جانور مہنگا ہے تو صاحب ثروت شخص قربانی کر لے اسے اللہ تعالی کے ہاں صرف کردہ مال کے مطابق اجر ملے گا۔ اور جو شخص غریب ہے قربانی کا جانور خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اللہ تعالی طاقت سے بڑھ کر کسی کو مکلف نہیں بناتا، لہذا اس پر قربانی نہیں ہے۔
نیز اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائیوں کیلیے عطیہ دینا چاہتا ہے تو وہ اپنے مال سے دل کھول کر عطیات دے، لیکن قربانی صرف اپنے علاقے میں ہی کرے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب