0 / 0

عبد القادر جیلانی اور معین چشتی کے مختصر حالات زندگی اور انکے عقائد

سوال: 143615

سوال: کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے شیخ عبد القادر جیلانی اور خواجہ معین الدین چشتی کی سوانح حیات کے بارے میں بتلائیں؟ کیونکہ پوری دنیا میں انکے بہت سے پیروکار ہیں، اس لئے میں ان کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کس قدر حق پر تھے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

1-عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ

آپکا نام و نسب  ابو محمد عبد القادر بن ابو صالح عبد اللہ بن جنکی دوست جیلی حنبلی  ہے۔

2-شیخ عبد القادر  کی پیدائش  طبرستان کے نواحی علاقے  “جیلان” میں  سن  470 ہجری میں ہوئی، اور آپکی وفات سن 561 ہجری  میں ہوئی۔

3-انہوں نے ابو غالب باقلانی ، احمد بن مظفر، اور ابو قاسم ابن بیان سے حدیث کا سماع کیا۔

آپکے شاگردوں میں سمعانی، حافظ عبد الغنی، اور شیخ موفق الدین ابن قدامہ  قابل ذکر ہیں۔

4- آپکے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“شیخ  عبد القادر جیلانی  بہت بڑے امام، عالم، زاہد، معرفت الہی رکھنے والے، اور قابل اقتدا، شیخ الاسلام  ہیں، اور اولیاء اللہ میں عظیم مقام رکھتے ہیں”
” سير أعلام النبلاء ” ( 20 / 439 )

امام سمعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ  کا تعلق  “جیلان” سے  ہےآپ حنبلی  فقہی مکتب میں اپنے زمانے کے  معتبر امام تھے، فقاہت،  نیکی تقوی، دینداری، بھلائی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، آپ کثرت کیساتھ ذکر کرتے ، ہمیشہ  گہری فکر میں مگن رہتے، اور آپ بہت ہی رقیق القلب شخصیت کے مالک تھے”
دیکھیں: ” سير أعلام النبلاء ” ( 20 / 441 )

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ میں بہت سی خوبیاں تھیں، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے علاوہ خاموش طبع تھے، آپ میں زہد  بہت زیادہ تھا، آپکی طرف اچھی باتیں اور مکاشفے منسوب ہیں، آپکے مداحوں نے  اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے، آپکے بارے میں ایسے اعمال اور افعال ذکر کیے جاتے ہیں جن میں سے اکثر غلو سے بھرپور ہوتے ہیں، آپ بہت نیک صالح، پرہیز گار تھے، آپ نے ” غُنیۃ الطالبین ”  اور” فتوح الغیب ” تصانیف فرمائیں، ان دونوں کتابوں میں اچھی باتیں بھی ہیں، اور ان میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات بھی ہیں، مجموعی طور پر  آپ کا شمار بڑے مشایخ میں ہوتا ہے”
” البداية والنهاية ” ( 12 / 768 )

5-کچھ محققین نے عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے عقیدے اور سیرت کے بارے میں تحقیق کی ہے، مثال کے طور پر شیخ سعید بن مسفر  حفظہ اللہ  نے اپنی کتاب: ” الشيخ عبدالقادر الجيلاني وآراؤه الاعتقادية والصوفية ” میں اس بات کا اہتمام کیا ہے، اصل میں یہ کتاب ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے ام القری یونیورسٹی  مکہ مکرمہ میں بطور علمی رسالہ پیش کی گئی ہے، اور انہوں نے اپنے علمی مقالے کے خلاصے میں لکھا ہے کہ:

1.شیخ عبد القادر جیلانی  سلفی العقیدہ  ہیں، عقیدے کے تمام مسائل میں  آپ اہل السنہ و الجماعہ  کے منہج پر آپ قائم ہیں، مثلاً: ایمان، توحید، نبوت، یومِ آخرت وغیرہ، اسی طرح آپ ولی الامر یعنی حکمران کی اطاعت کرنے پر زور دیتے ہیں، اور ان کے خلاف بغاوت  کو جائز قرار نہیں دیتے۔

2.شیخ عبد القادر جیلانی  صوفیوں کے ان مشایخ میں سے ہیں جو کتاب و سنت کے مفہوم سے قریب تر ہیں   اور معتدل  نظریات کے حامل ہیں، ان نظریات کی عام طور پر بنیاد کتاب و سنت ہے، ساتھ میں قلبی عبادات پر  آپ گہری توجہ دیتے تھے۔

3.عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے جن  مشایخ سے علمِ تصوّف لیا ہے  ان مشایخ  کو کتاب و سنت  پر مبنی  علم حاصل کرنے کی ضرورت تھی، جیسے کہ آپ کے شیخ “دباس” ہیں،  شیخ دباس  ان پڑھ تھے، وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، یہی وجہ ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی  سے کچھ لغزشیں سر زد ہوئیں، اور عبادات کے نام پر کچھ بدعات    کے مرتکب ہوئے، تاہم اس قسم کی لغزشیں انکی نیکیوں کے مقابلے میں کچھ نہیں  ہیں ، معصوم تو صرف  انبیائے کرام ہی ہیں، باقی ہر کسی سے غلطی ہو سکتی ہے، اور تاروں کی وجہ سے چاندنی  ماند نہیں پڑتی۔

4.شیخ عبد القادر جیلانی کی طرف منسوب  کرامات مبالغہ آرائی سے بھرپور ہیں، اور کچھ سرے سے ہی غلط ہیں، اور جن باتوں کو صحیح سمجھا جا سکتا ہے تو وہ فراستِ مومن کے تحت ہیں ، یا ایسی کرامات  سے تعلق رکھتی ہیں، جن کے بارے میں اہل سنت و الجماعت  متعین قواعد و ضوابط  کے تحت  انہیں قبول کرتے ہیں، جو کہ اس علمی مقالے میں جگہ جگہ ذکر ہیں” انتہی

ماخوذ از: ” الشيخ عبدالقادر الجيلاني وآراؤه الاعتقادية والصوفية ” ( ص 660 ، 661 )

مزید کیلئے سوال نمبر:  (12932 ) اور ( 45435 )کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں۔

دوم:

معین الدین چشتی

1-مکمل نام خواجہ معین الدین حسن بن خواجہ غیاث الدین سجزی ہے، آپکو “غریب نواز” کے نام سے پہچانا جاتا ہے، جسکا مطلب ہے: “غریبوں کو عطا کرنے والا”

2- پیدائش موجودہ ایران کے شمال مشرقی  علاقے “سیستان” میں  سن 536 ہجری  میں اور وفات سن 627 ہجری میں ہوئی۔

3-شمالی ایشیا کے مشہور ترین  اولیاء میں آپکا شمار ہوتا ہے، آپکے مزار کی زیارت سب سے زیادہ صوفی اور خرافی لوگ کرتے ہیں، بلکہ آپکی قبر کی زیارت کیلئے ہندو بھی تشریف لاتے ہیں!

4-آپ کے تصوف میں آنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
معین الدین چشتی  اپنے باغ میں  پانی لگا رہے تھے، کہ ایک شیخ  ابراہم قندوزی نامی صوفی شخص  انکے پاس آئے، معین الدین چشتی اس وقت نوجوان تھے، انہوں نے آگے بڑھ کر کھانے کیلئے کچھ  پھل مہیا کیے، اور اس کے بدلے میں شیخ ابراہیم  قندوزی  نے اپنی داڑھی کے کچھ بال کھانے کیلئے دے دیے!! اور معین الدین چشتی نے ایسے ہی کیا اور بال کھال لیے، چنانچہ  معین الدین چشتی کا باطن روشن ہو گیا!! اور اپنے آپ  کو کسی اور اجنبی جہاں نے میں محسوس کرنے لگا! اس واقعے کے بعد انہوں نے اپنے باغ کو چھوڑا، سب جمع پونجی اکٹھی کی اور فقراء میں تقسیم کرتے ہوئے  دنیا داری ترک کر دی، اور “بخارا” شہر  علم حاصل کرنے کیلئے چلے گئے!

5-معین الدین چشتی  نے دنیا کے کافی علاقوں کا سفر کیا، پھر آخر کار ہندوستان آ گئے آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے  کے بعد نبوی رہنمائی پر “لاہور” کا رخ کیا، اور پھر کچھ ہی دیر بعد  راجستھان کے علاقے “اجمیر” میں  ڈیرے لگائے، اور وہیں انکی وفات ہوئی۔

6-سلسلہ چشتیہ کی نشر و اشاعت  انہوں نے ہی کی ہے، اور چشت اصل میں  افغانستان کے شمال مغربی علاقے کے “ہرات” میں ایک بستی کا نام ہے۔

7-معین الدین چشتی کا یہ سلسلہ دیگر بدعتی صوفی  سلسلوں سے ملتا جلتا ہی ہے، بلکہ ان سلسلوں کے کچھ نظریات کفریہ  بھی ہیں۔

اسی سلسلے میں ایک ریاضت “چشتی مراقبہ” بھی ہے، جس میں ہر ہفتے آدھ گھنٹہ کسی قبر پر گزارنا ہوتا ہے، اس میں مرید اپنا سر ڈھانپ کر  “اللہ حاضری” اور “اللہ ناظری” کی ضربیں لگاتا ہے۔

اس طریقہ کار کے بدعتی اور گمراہی پر مبنی ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے، بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ شرک کا ذریعہ بن جائے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس طریقے پر مراقبہ کرنے والا صوفی شخص  صاحب قبر  کو  اپنے دل و دماغ میں سوار کرے، اسی کا خیال و دھیان  اپنے ذہن میں لائے، اور یہ چیز  شرک اکبر ہے۔

سوم:

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“برائے کرم ہمیں مختصر طور پر تصوف اور صوفیاء اور انکے عقائد کے متعلق بتائیں، نیز یہ وضاحت فرمائیں کہ ان کے متعلق اہل سنت والجماعت کی کیا رائے ہے، اور اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان سے کس طرح کا معاملہ کرنا چاہئے، جبکہ یہ صوفی لوگ اپنے عقیدے پر جمے رہیں، اور ان پر حقائق واضح ہوجانے کے بعد بھی وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھیں؟ “

تو انہوں نے جواب دیا:
“صوفی کا لفظ صوف [اون] سے نکلا ہے، کیونکہ یہی ان کے لباس کی علامت تھی، اور یہ معنی لغوی اعتبار سے اور انکی حقیقی صورتحال کے اعتبار سے زیادہ قریب بھی ہے ، جبکہ ان کے بارے میں یہ کہنا کہ ان لوگوں کی نسبت اصحاب صفہ رضی اللہ عنھم کی طرف ہے؛ اس لئے کہ وہ مسجد نبوی کے چبوتے پر پناہ گزین فقیر صحابہ کرام سے مشابہت رکھتے ہیں ، یا “صفوة” [صفائی] کی طرف نسبت ہے کیونکہ ان کے دل اور اعمال پاکیزہ تھے، تو یہ سب باتیں غلط ہیں؛ کیونکہ صفہ سے نسبت ہوتی تو “ف”اور “ی”کی تشدید کے ساتھ “صفّیّ “کہا جاتا، اور “صفوة” کی طرف نسبت سے “صفوی “ہوتا، اور اس لئے بھی کہ یہ دونوں معانی انکی صفات پر صادق نہیں آتے، کیونکہ ان کے اندر خراب عقیدہ اور کثرت سے بدعتیں موجود ہیں۔

صوفیاء کے تمام سلسلوں یا جسے اب تصوف کہا جاتا ہے ان  میں اکثر شرکیہ بدعتیں، یا شرک کے وسائل ، فاسد عقائد اور قرآن و حدیث کی مخالفت پائی جاتی ہے، جیسے مُردوں اور قطب وغیرہ سے یہ کہتے ہوئے مدد مانگنا: “مدد يا سيدی”، “مدد يا سيدہ زینب”، “مدد يا بدوی” اور “مدد يا دسوقی”یا اسی  طرح کے دیگر الفاظوں کے ذریعے پیروں اور بزرگوں سے مانگنا ، ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ لوگ دلوں کے جاسوس ہیں جو غیب کی باتوں کو جانتے ہیں، اور انہیں دلوں کی پوشیدہ باتوں کا علم ہوتا ہے، اور ان کے پاس ایسے راز ہیں جنکی وجہ سے وہ معمول کے اسباب سے ہٹ کر بھی اعمال انجام دیتے ہیں، اور اسی طرح اللہ تعالی کو ایسے نام سے پکارتے ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے لئے اختیار نہیں فرمائے، جیسے کہ: ہو،ہواور آه آه آه وغیرہ

اور صوفیوں کے ہاں مختلف بدعتی ورد اور غیر شرعی دعائیں پائی جاتی ہیں، چنانچہ وہ اپنے مریدوں سے یہ عہد لیتے ہیں کہ وہ اللہ کے ناموں میں سے بعض مخصوص مفرد اسماء کا ذکر اپنے عبادات و وظائف میں اجتماعی انداز میں کریں، جیسے “الله “اور “حي “اور “قيوم “وغیرہ، وہ ان ناموں کا دن  رات ورد کرتے ہیں اور اپنے پیروں کی اجازت کے بغیر دیگر ناموں کا ذکر نہیں کرتے، بصورت دیگر وہ گناہگار ہونگے اور ان کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے، یہ سب کام خوش الحانی، رکوع و قیام، رقص، گانے بجانے اور تالیوں وغیرہ اور دیگر بے دلیل کام  ہیں، یہ انداز کتاب اللہ میں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں۔

 لہذا مسلمان کیلئے ان کی مجالس میں بیٹھنا منع ہے، اور ان کی صحبت اختیار کرنے سے گریز کرے، تا کہ ان کے فاسد عقیدوں سے بچ سکے اور ان کی طرح شرك وبدعت میں مبتلا نہ ہو، تاہم انہیں نصیحت کرے اور حق بات بیان کرے، ممکن ہے کہ اللہ تعالی انہیں اسکی وجہ سے راہ مستقیم کی طرف ھدایت دے،  اور جن جن باتوں میں انکا عمل قرآن وسنت کے مطابق ہے ان کو مان لے، اور جن باتوں میں ان سے قرآن وسنت کی مخالفت سرزد ہوئی ہے ان کا انکار کرے اور اپنے دینی تشخص کی حفاظت کیلئے منہج اہل سنت والجماعت لازم پکڑے ۔

صوفیوں کے احوال اور ان کےعقائد کو تفصیل سے جاننے کیلئے : “مدارج السالكین”  از ابن قیم الجوزیہ کا مطالعہ کرے ، اور اسی طرح عبدالرحمن الوکیل کی كتاب (هذه هي الصوفية) کو بھی پڑھے” انتہی
شیخ عبد العزيز بن باز ،  شیخ عبد العزيز آل شیخ، شیخ صالح الفوزان ، شیخ بكر أبو زيد

” فتاوى اللجنة الدائمة ” دوسرا ایڈیشن ( 2 / 88 – 90 )

مزید کیلئے سوال نمبر: (20375) دیکھیں اس میں صوفی  سلسلوں کی طرف  نسبت اپنانے کا حکم بیان کیا گیا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android