ميں غصہ كى حالت ميں اپنے ايك دوست سے بات كر رہا تھا اس نے مجھ سے دريافت كيا اگر تمہارے ہاں تيسرى بچى نے جنم ليا تو ؟
ميں نے اسے كہا: اگر ميرى بيوى نے تيسرى بچى جن مدى تو ميں اسے طلاق دے دونگا، ليكن ميرى اس كلام سے طلاق مقصود نہ تھى، كيا اس سے طلاق واقع ہو جائيگى ؟
خاوند كہنے لگا: اگر بيوى نے تيسرى بچى كو جنم ديا تو ميں اسے طلاق دے دونگا ليكن اس سے اس كا مقصد طلاق نہ ہو
سوال: 144991
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ كا يہ كہنا: ” اگر ميرى بيوى نے تيسرى بچى كو جنم ديا تو ميں اسے طلاق دے دونگا ”
يہ تو آئندہ مستقبل ميں ايك كام كرنے كا وعدہ ہے كہ اسے طلاق دے دونگا، اس ليے اگر بيوى نے بچى جنم دى اور آپ اسے طلاق نہ ديں تو كچھ بھى واقع نہيں ہوگا، اور اس كى تاكيد اس سے بھى ہوتى ہے كہ آپ نے اپنى اس كلام سے طلاق كا مضمون ہى مقصد نہ ليا تھا، نہ تو آپ نے اسى وقت طلاق كا ارادہ كيا تھا اور نہ ہى بچى كى ولادت پر طلاق كو معلق كيا ہے.
ليكن اگر آپ نے يہ بات كہى كہ: ” اگر ميرى بيوى نے تيسرى بچى جنم دى تو اسے طلاق ” تو اگر بيوى كے ہاں تيسرى بچى پيدا ہوئى تو طلاق ہو جائيگى.
طلاق كے الفاظ ويسے ہى استعمال نہيں كرتے رہنا چاہيے، بلكہ ازدواجى تعلقات كو ختم كرنے كے ليے طلاق بھى وہيں استعمال ہو سكتى ہے كہ اگر طلاق كو مباح كرنے والا كوئى سبب ہو يعنى شرعى سبب كے بغير طلاق جائز نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب