سوال: کچھ عورتیں اپنے زیورات کی زکاۃ اندازہ لگا کر ادا کرتی ہیں، یعنی زیورات کی فرض زکاۃ ادا کرنے کیلئے سونے کا وزن نہیں کرتیں، تو کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟
کیا سونے کا تخمینہ لگا کر زکاۃ ادا کرنا جائز ہے؟ یا وزن کرنا ضروری ہے؟
سوال: 145091
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سونے کا وزن کیے بغیر زکاۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ انہیں یہ یقین ہو کہ زکاۃ کی فرض مقدار ادا کر دی گئی ہے۔
شیخ حمد بن ناصر تمیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس وقت انسان کو ماپ، تول، گنتی یا پیمائش کے بغیر ہی یقین ہو جائے کہ اس نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی ہے تو اس کی زکاۃ کی ادائیگی ہو گئی ہے؛ کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی کا مقصد یہ ہے کہ انسان زکاۃ ادا کر کے بعد بری الذمہ ہو جائے، اور یہی معاملہ فطرانہ سے متعلق ہے” انتہی
“مجموعة الرسائل والمسائل” (1/107)
شیخ عبد العزیز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ ایک عورت اپنے زیور کی زکاۃ اندازے سے ادا کرتی رہی ہے۔
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر زکاۃ ادا کرنے کے بعد وزن کرنے سے معلوم ہوا کہ سونے کے وزن یا قیمت کے مطابق فرض شدہ زکاۃ سے ادا کردہ زکاۃکم تھی تو پھر اندازے سے نکالی ہوئی سابقہ سالوں کی زکاۃ مکمل کریں” انتہی
ماخوذ از: “فتاوی نور على الدرب”
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ :
“کوئی زکاۃ ادا کرتے ہوئے احتیاط سے کام لے اور زیادہ ادا کر دے، مثلاً کوئی خاتون یہ کہے کہ مجھے سونے کا وزن جاننے کیلئے سونار کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے میں خود ہی اندازہ لگا کر فرض زکاۃ سے زیادہ ہی دے دونگی”
تو انہوں نے جوا ب دیا:
“اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ انسان اپنے ذمہ واجب مقدار سے زیادہ زکاۃ ادا کرے، اور اپنے دل میں یہ نیت کرے کہ زائد مقدار نفل صدقہ ہے؛ کیونکہ نفل صدقے کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے” انتہی
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب