اول:
کھانے پینے اور دیگر امور میں اسراف قابل مذمت ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: { وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ } ترجمہ: کھاؤ اور پیو، اور حد سے تجاوز مت کرو، یقیناً اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔ [الاعراف: 31]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
ترجمہ: اسراف مت کرو؛ یقیناً اللہ تعالی اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔ [الانعام: 141]
ایسے ہی فرمایا:
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا
ترجمہ: اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھ اور نہ ہی اسے پوری طرح کھلا چھوڑ ، ورنہ خود ملامت زدہ اور درماندہ بن کر رہ جائے گا۔ [الاسراء: 29]
اس آیت سے پہلے فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
ترجمہ: اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتا رہ، اور اسراف اور بے جا خرچ سے لازمی طور پر بچ [26] بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ [الاسراء: 26 – 27]
اسراف اور تبذیر میں فرق:
"اسراف اس چیز کو کہتے ہیں کہ جہاں جتنی ضرورت ہو اس سے زیادہ خرچ کرنا، جبکہ تبذیر کہتے ہیں جہاں ضرورت بھی نہ ہو وہاں پیسہ جھونک دینا۔" یہ فرق علامہ مناوی رحمہ اللہ نے "فيض القدير" (1/50) میں بیان کیا ہے۔
دوم:
اسراف چونکہ حد سے تجاوز کو کہتے ہیں اس لیے کھانے پینے میں اسراف یہ ہو گا کہ انسان سیر شکم ہونے کے بعد بھی کھاتا رہے، اور سیر شکم انسان کب ہوتا ہے اس کے لیے ایک یا دو کھانے یا تین کھانے مراد نہیں ہیں؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ انسان کو دن میں ایک ہی کھانا ملے لیکن اس میں بھی اسراف کا مرتکب ہو جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان دن میں تین وقت کھانا کھائے لیکن اسراف پھر بھی نہ ہو۔
سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کھانا کم کھانے کی ترغیب ہے کہ کھانا صرف اتنا کھانے پر اکتفا کیا جائے کہ جس سے کمر سیدھی رہے، اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ دن میں کتنے کھانے کھانے ہیں؛ لہذا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دن میں تین وقت ناشتہ ، دوپہر اور رات کے کھانے میں حدیث کے مطابق چند لقمے کھائے اور پھر بھی کھانے کے معاملے میں معتدل یا کم کھانے والا شمار ہو، اور اگر اپنے ایک کھانے کی مقدار زیادہ کرنا چاہتا ہے تو پھر ایک تہائی کھانے کے لیے دوسری تہائی پانی کے لیے اور تیسری تہائی سانس کے لیے رکھے، پھر جب دوبارہ بھوک لگے اور عام طور پر لوگوں کو اتنی مقدار میں کھانا کھانے پر بھوک لگ ہی جاتی ہے تو دوبارہ کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن سابقہ باتوں کو دوبارہ کھاتے ہوئے بھی مد نظر رکھے۔ اسی طرح اگر کسی کو دن میں تیسری یا چوتھی بار بھی کھانے کی طلب محسوس ہوتی ہے تو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ایک دن میں کھانے کی تعداد افراد کے اعتبار سے الگ الگ ہو سکتی ہے، نیز کھانے کی نوعیت بھی اس حوالے سے مؤثر عامل ہے، پھر انسان کی جسمانی سرگرمیاں کیسی ہیں اس سے بھی بھوک پر اثر پڑتا ہے۔
تو حدیث مبارکہ میں اصل مقصود یہ ہے کہ جسم کی حفاظت کی جائے، اسے نقصان نہ پہنچایا جائے، چاہے بھوک کی شکل میں ہو یا سیر ہونے کی شکل میں۔
نیز یہاں یہ بھی مقصود ہے کہ : کھانا کھا کر اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے لیے توانائی حاصل کی جائے، اور توانائی کا حصول معتدل خوراک لینے سے ہوتا ہے، حلق تک پیٹ بھرنے سے یا بالکل بھوکے رہنے سے نہیں ہوتا۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ سورت الاعراف کی آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی ہے: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلا تُسْرِفُوا ترجمہ: کھاؤ اور پیو، اور اسراف نہ کرو۔[الاعراف: 31] ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے کھانے اور پینے کو اس حد تک حلال قرار دیا ہے کہ اس میں اسراف نہ ہو، یا تکبر نہ ہو۔ چنانچہ جس قدر جسم کی ضرورت ہو یعنی جس سے بھوک ختم ہو جائے اور پیاس نہ لگے اس قدر کھانا یپنا عقلا اور شرعاً دونوں طرح ہی مستحب ہے؛ کیونکہ اتنی مقدار میں کھانا کھانے سے انسانی جان کو تحفظ حاصل ہو گا اور حواس صحیح طرح کام کرتے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ شریعت میں وصال سے منع کیا گیا ہے؛ کیونکہ وصال کرنے سے جسم کمزور ہو جاتا ہے اور عقل بھی کمزور ہو جاتی ہے، انسان عبادات کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ایسی کیفیت سے شریعت بھی منع کرتی ہے اور عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔ لہذا اگر کوئی شخص اپنے جسم کی ضرورت کے مطابق کھانا نہیں کھاتا تو ایسا شخص کسی بھی طرح سے نیکی نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی وہ زہد سے کام لے رہا ہے؛ کیونکہ جسمانی ضرورت کے مطابق کھانا نہ کھا کر جسم میں جو کمزوری پیدا ہوئی اس نے نیکیوں سے روکا ہے اور وہ نیکیاں اس کے لیے زیادہ ثواب اور عظیم اجر کا باعث تھیں۔
تاہم جسمانی ضرورت سے زائد کھانے کے بارے میں دو قول ہیں: کچھ کہتے ہیں کہ حرام ہے، کچھ کہتے ہیں کہ مکروہ ہے۔ ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہی موقف صحیح ہے۔ اس لیے سیر شکم ہونے کی مقدار کتنی ہوتی ہے؟ یہ جگہ، وقت، عمر اور کھانے کی نوعیت تبدیل ہونے سے بدل جائے گی۔ پھر یہ بھی مشہور بات ہے کہ کم کھانے کے بہت سے فوائد ہیں، مثلاً: انسان جسمانی طور پر صحت مند رہتا ہے، قوتِ حافظہ مضبوط ہوتی ہے، نیند کم آتی ہے اور انسان اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے، جبکہ زیادہ کھانے سے معدہ ناقابل کنٹرول ہو جاتا ہے، بد ترین بد ہضمی لاحق ہو جاتی ہے، اور زیادہ کھانے کی وجہ سے متعدد امراض لاحق ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کم کھانے والے کی بہ نسبت زیادہ کھانے والے کو ادویات کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ حکمت کے ماہرین کہتے ہیں: بہترین دوا ، بہترین غذا ہے۔" ختم شد
"تفسير القرطبی" (7/ 191)
اسی طرح الموسوعة الفقهية (25/ 332) میں ہے کہ:
"کھانے کے چند آداب: معتدل مقدار میں کھانا کھائیں، پیٹ بھر کر کھانا مت کھائیں، کھانے کی مقدار کے حوالے سے مسلمان کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش اتنی نکلتی ہے کہ مسلمان ایک تہائی کھانے کے لیے دوسری تہائی پینے کے لیے اور تیسری تہائی سانس کے لیے ؛ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ: (ابن آدم نے اپنے پیٹ سے بڑھ کر کوئی برا برتن کبھی نہیں بھرا؛ حالانکہ ابن آدم کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھیں، اور اگر کھانا لازم ہے تو پھر ایک تہائی کھانے کے لیے، دوسری تہائی پانی کے لیے اور تیسری تہائی سانس لینے کے لیے) نیز اس تقسیم کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ: جسم بھی معتدل اور ہلکا پھلکا رہے گا؛ کیونکہ زیادہ کھانے کی وجہ سے جسم بھاری بھرکم ہو جاتا ہے، اور جسم بھاری ہونے کی وجہ سے عبادت اور کام کاج میں سستی پیدا ہوتی ہے۔ نیز اس حدیث میں ایک تہائی سے کتنی مقدار مراد ہے؟ اس کے بارے میں کچھ کہتے ہیں کہ یہاں ایک تہائی سے مراد سیر شکم ہونا ہے، جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ نصف مد کی مقدار ہے، تاہم نفراوی رحمہ اللہ نے پہلے موقف کو زیادہ بہتر قرار دیا ہے؛ کیونکہ لوگوں کے سیر شکم ہونے کی مقدار اور کیفیت الگ ہو سکتی ہے۔ یہ سب باتیں ایسے شخص کے لیے ہیں جو کم کھانے کی وجہ سے کمزوری کا شکار نہ ہو، لہذا ایسے شخص کے لیے اتنی مقدار میں کھانا کھانا افضل ہے کہ جس سے عبادت کے لیے جسم میں توانائی پیدا ہو، اور جسمانی طور پر معتدل رہ سکے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ: کھانے کی مقدار کے تین درجے ہیں:
فرض: جتنی مقدار سے انسان زندہ رہے ، لہذا اگر کوئی شخص کھانا پینا چھوڑ دے اور اسی وجہ سے اس کی موت واقع ہو جائے تو یہ شخص نافرمان ہے۔
باعث اجر: کھانے کی وہ مقدار انسان کے لیے باعث اجر ہو گی جو زندگی بچانے کی مقدار سے زیادہ اس لیے لے گا کہ نمازیں ادا کر سکے اور روزہ رکھنا اس کے لیے آسان ہو۔
مباح مقدار: کھانے کی ایسی مقدار مراد ہے جو سیر شکم ہونے کے بعد جسمانی قوت بڑھانے کے لیے لی جائے، اس میں نہ تو اجر ملے گا اور نہ ہی اس پر گناہ ہو گا، لیکن اگر یہ کھانا حلال ذریعے سے حاصل کیا گیا تھا تو اس پر ہلکا پھلکا محاسبہ ہو گا۔
حرام مقدار: وہ مقدار ہے جو سیر شکم ہونے کے بعد بلا مقصد کھائی جائے، تاہم اگر آئندہ دن کا روزہ رکھنا ہو، یا اس لیے انسان سیر شکم ہونے کے بعد بھی کھاتا رہے کہ دسترخوان پر موجود مہمان شرم سار نہ ہو تو پھر ان ضروریات کی بنا پر پیٹ بھر جانے کے بعد بھی کھاتے رہنے کی گنجائش ہے۔
ابن الحاج کہتے ہیں: کھانا کھانے کے بھی درجات ہیں: واجب، مندوب، مباح، مکروہ اور حرام۔ چنانچہ اتنی مقدار میں کھانا کھانا واجب ہے جس کی وجہ سے کمر سیدھی رکھ سکے اور اللہ تعالی کے فرض کردہ فرائض سر انجام دے سکے؛ کیونکہ جس ذریعے سے واجب کی ادائیگی ممکن ہوتی ہے وہ ذریعہ بھی واجب ہوتا ہے۔
کھانے کا مندوب درجہ یہ ہے کہ: جس کھانے کی وجہ سے نوافل کی ادائیگی آسان ہو، انسان کے لیے حصولِ علم اور اس کے علاوہ دیگر نیکیاں کرنا ممکن ہو۔
اور کھانے کا مباح درجہ یہ ہے کہ: انسان شرعی طور پر مقرر کردہ طریقے کے مطابق سیر شکم ہو۔ جبکہ کھانے کا مکروہ درجہ یہ ہے کہ: سیر شکم ہونے کے بعد صرف اتنی مقدار میں زیادہ کھائے جس سے جسم کو نقصان نہ ہو۔ اور کھانے کا حرام درجہ یہ ہے کہ: انسان اتنا زیادہ کھا لے کہ جس سے جسمانی نقصان ہونا شروع ہو جائے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سیر شکم ہونے کے بعد بھی حلال کھانا کھاتے رہنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔
اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں: اتنی مقدار میں زیادہ کھانا کھانا جائز ہے کہ جس سے انسان کو نقصان نہ ہو، جبکہ غنیہ میں ہے کہ: اگر بسیار خوری کی وجہ سے بد ہضمی کا خدشہ ہو تو بسیار خوری مکروہ ہے۔ جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بدہضمی کا باعث بننے والی بسیار خوری کے متعلق حرمت اور کراہت دونوں طرح کا موقف منقول ہے۔" ختم شد
سوم:
مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہوا کہ ایک دن میں ایک سے زائد بار کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز یہ کہ متعدد بار کھانا بذات خود کوئی اسراف نہیں ہے، بلکہ اسراف یہ ہے کہ انسان سیر شکم ہونے کے بعد بھی کھاتا رہے چاہے یہ اسراف ایک ہی کھانے میں کیوں نہ ہو۔
اور اس بات کی دلیل کہ سیر شکم ہو کر کھانا کھانا جائز ہے ، جبکہ مکروہ اور حرام کھانے کی وہ مقدار ہے جو سیر شکمی سے زیادہ ہو تو، صحیح بخاری: (5381) اور مسلم: (2040) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "ایک بار سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سنی تو مجھے آپ کی آواز میں کمزوری محسوس ہوئی، مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھوک نے تنگ کیا ہوا ہے، تو کیا آپ کے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ " اسی واقعہ میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا سے کھانا زیادہ ہو گیا، اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دس لوگوں کو آنے دو، تو دس لوگوں کو اجازت دی گئی، وہ آئے اور انہوں نے اتنا کھانا تناول کیا کہ سیر شکم ہو کر واپس چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دس لوگوں کو آنے دو، تو دس لوگوں کو اجازت دی گئی، وہ آئے اور انہوں نے اتنا کھانا تناول کیا کہ سیر شکم ہو کر واپس چلے گئے۔ پھر دس لوگوں کو اجازت دی گئی، وہ آئے اور انہوں نے اتنا کھانا تناول کیا کہ سب کے سب لوگ سیر شکم ہو کر واپس چلے گئے، اور اس وقت لوگوں کی مجموعی تعداد 80 افراد تھی۔)
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے کہ: باب ہے سیر شکم ہو کر کھانے کے بارے میں۔
اس میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ذکر کیا ہے کہ: "نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت فوت ہوئے جب ہم کھجور اور پانی سے سیر ہو جایا کرتے تھے۔"
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن بطال رحمہ اللہ کے مطابق ان احادیث میں سیر شکم ہو کر کھانا کھانے کا جواز ہے، اور یہ بھی کہ کبھی کبھار پیٹ بھر کر نہ کھایا جائے تو یہ افضل ہے، ۔۔۔ طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں: پیٹ بھر کر کھانا اگرچہ جائز ہے لیکن پھر بھی پیٹ بھر کر کھانے کی بھی ایک حد ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، اگر اس حد سے تجاوز کریں گے تو یہ فضول خرچی اور اسراف میں آئے گا۔ تو کھانے کی مباح مقدار وہی ہو گی جو کھانے والے کے لیے اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے سلسلے میں معاون بنے ، اور بسیار خوری کی وجہ سے واجبات کی ادائیگی میں بوجھ نہ بنے۔ ختم شد علامہ قرطبی رحمہ اللہ "المفہم" میں ابو ہیثم کا واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ہمراہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لیے بکرا ذبح کیا تو سب نے پیٹ بھر کر کھایا تھا۔ تو قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے سیر شکم ہو کر کھانا کھانے کے جواز کی دلیل ملتی ہے، چنانچہ جن احادیث میں پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے ممانعت ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ اتنا زیادہ سیر ہو کر نہ کھائے کہ جس سے انسان بوجھل ہو جائے، اور انسان عبادات اچھے طریقے سے سر انجام نہ دے سکے، اور بسیار خوری نیند، سستی ، تکبر اور نخوت کا باعث بنے، کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ بسیار خوری کا حکم نتائج کی وجہ سے کراہت سے حرمت کی طرف چلا جائے۔" ختم شد
ماخوذ از: فتح الباری
چہارم:
آپ نے اپنے ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے متعلق ذکر کیا ہے تو یہ اسراف میں شمار نہیں ہو گا۔
واللہ اعلم