ايك شخص نے اپنى بيوى كو طلاق دى اور عدت ختم ہونے سے قبل اس سے رجوع كر ليا، اور تقريبا دس برس كے بعد ان كے مابين جھگڑا ہوا جس كے نتيجہ ميں بيوى نے طلاق كا مطالبہ كر ديا، اور پڑوسيوں كے سامنے پانچ بار سے بھى زائد خاوند كو طلاق دينے پر ابھارا، چنانچہ خاوند نے كاغذ ليا اور اس ميں درج ذيل كلمات لكھے:
ميں فلان بن فلان نے اپنى بيوى فلان بنت فلان كو شرعى طلاق دى جس ميں كوئى رجوع نہيں ہے، اور اس پر دو آدميوں كو گواہ بھى بنايا.
ايك ماہ گزرنے كے بعد پڑوسيوں نے آ كر ان كے مابين صلح كرا دى تو خاوند نے بيوى سے رجوع كر ليا، تو كيا يہ رجوع صحيح ہے يا نہيں كيونكہ اس نے كاغذ ميں تو لكھا تھا كہ ايسى طلاق جس ميں كوئى رجوع نہيں ؟
بيوى كو طلاق ديتے ہوئے كہا: تجھے ايسى طلاق جس ميں رجوع نہيں ہے
سوال: 145460
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس ميں تفصيل ہے؛ اگر وہ طلاق جس ميں اس نے رجوع كيا تھا پہلى طلاق تھى، اور پھر اس نے يہ طلاق دى تو اسے بھى ايك طلاق شمار كيا جائيگا اس طرح يہ دوسرى طلاق ہوگى چاہے اس نے كہا ہو اس ميں كوئى رجوع نہيں؛ كيونكہ يہ ايك طلاق كے حكم ميں ہے، چاہے وہ اس ميں يہ كہے طلاق بائن يا اس ميں رجوع نہيں، يا پھر تين طلاق كے الفاظ بولے؛ كيونكہ صحيح وہى ہے جو ہم فتوى دے رہے ہيں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اسى كا ثبوت ملتا ہے جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتے ہيں:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں اور ابو بكر صديق كے دور ميں اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے ابتدائى دور ميں تين طلاق ـ ايك لفظ ميں ـ كو ايك طلاق ہى شمار كيا جاتا تھا “
اس طلاق كو بھى جمع كيا جائے تو يہ دو طلاقيں ہو جائيں گى اور خاوند كو رجوع كرنے كا حق حاصل ہوگا جب تك بيوى عدت ميں ہے، اور حاملہ بھى ہو تو عدت ميں رجوع ہو سكتا ہے اور باقى ايك طلاق رہ جائيگى.
ليكن اگر وہ سابقہ طلاق جس ميں رجوع كيا گيا تھا دوسرى طلاق تھى تو اس كے بعد رجوع نہيں ہے كيونكہ يہ تيسرى طلاق ہوگى تو اس طرح تين طلاقيں پورى ہو جائيں گى اور اسے رجوع كا حق نہيں رہےگا، اہل علم كا يہى قول ہے ” انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1793 )