ميرے ايك دوست نے اپنى بيوى كو تين طلاقيں دى ہيں ليكن پہلى طلاق رخصتى اور دخول سے قبل تھى، ليكن نكاح ہو چكا تھا، تو كيا يہاں تين طلاقيں شمار ہونگى يا كہ دخول سے پہلے والى طلاق شمار نہيں كى جائيگى، اور اسے واپس لانا كس طرح ممكن ہے ؟
دخول سے قبل طلاق دى اور پھر دوبارہ اس سے نكاح كر ليا تو كتنى طلاق باقى ہيں
سوال: 145923
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب آدمى بيوى كو دخول اور رخصتى سے قبل ہى طلاق دے دے يا پھر دخول كے بعد طلاق دے اور عدت ميں رجوع نہ كرے، اور پھر دوبارہ اس سے نكاح كر لے اور اس عورت نے كسى اور شخص سے شادى نہ كى ہو تو وہ باقى مانندہ طلاق ميں ہى واپس آئيگى، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اس طرح اسے دو طلاقيں باقى ہونگى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس كا اجمالى بيان يہ ہے كہ جب اس كى بيوى بائن ہو جائے، اور پھر اس نے اسى عورت سے شادى كر لى تو اس كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
وہ اسے تين طلاقيں دے دے، اور وہ عورت كسى دوسرے شخص سے شادى كرے اور وہ اسے چھوڑ دے پھر پہلا خاوند اس سے شادى كر لے تو بالاجماع يہ عورت تين طلاق ميں واپس آئيگى يعنى اسے تين طلاق دينے كا حق ہوگا، ابن منذر كا قول يہى ہے.
دوسرى حالت:
اسے تين كى بجائے ايك يا دو طلاق دى ہوں، اور خاوند اپنى بيوى سے رجوع كر لے، يا پھر دوسرے خاوند سے قبل وہ دوبارہ نكاح كر لے تو جتنى طلاق باقى ہونگى اس ميں ہى وہ عورت واپس آئيگى، ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى اختلاف نہيں.
تيسرى حالت:
اسے تين سے كم يعنى ايك يا دو طلاق ہوئى ہوں، اور عورت كى عدت ختم ہو جائے، پھر اس نے كسى دوسرے شخص سے نكاح كر ليا ہو، اور پھر بعد ميں وہ عورت پہلے خاوند سے شادى كر لے تو امام احمد رحمہ اللہ سے اسم سئلہ ميں دو روايتيں ہيں:
پہلى روايت: وہ باقى مانندہ طلاق كے ساتھ ہى واپس ہو گى، اكابر صحابہ كرام عمر اور على اور ابى بن كعب اور معاذ اور عمران بن حصين اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم كا يہى قول ہے.
اور زيد اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے يہى مروى ہے اور سعيد بن مسيب اور عبيدہ اور حسن، مالك، ثورى، ابن ابى ليلى، شافعى، اسحاق، ابو عبديہ، ابو ثور، محمد بن حسن، ابن منذر كا يہى قول ہے.
اور امام احمد سے دوسرى روايت يہ ہے كہ: وہ تين طلاق پر ہى واپس آئيگى يعنى اسے پھر تين طلاق كا حق حاصل ہوگا ابن عمر، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور عطاء، نخعى، شريح ابو حنيفہ اور ابو يوسف رحمہم اللہ كا قول يہى ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 389 ).
اس بنا پر آپ كے دوست كى بيوى نے پہلى طلاق كے بعد نكاح نہيں كيا تھا تو عقد ثانى كے بعد اسے دو طلاق كا حق حاصل ہے.
اور اگر وہ اسے دو طلاقيں دے دے تو وہ اس سے بائن كبرى ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس سے نكاح كرنا حلال نہيں حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے نہ كا نكاح حلالہ پھر وہ شخص اسے اپنى مرضى سے طلاق دے دے يا پھر فوت ہو جائے تو پہلا خاوند نكاح كر سكتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب