0 / 0
4,85229/12/2012

مہر مؤخر كى ادائيگى كب لازم ہے ؟

سوال: 145955

كيا شادى كے بعد بغير كسى طلاق يا وفات كے رخصتى كے بعد ہى خاوند كے ليے مہر كى ادائيگى واجب ہے، يعنى جب خاوند كى زندگى ميں ہى بيوى مہر مؤخر كا مطالبہ كرے توا دائيگى ضرورى ہے يا نہيں، اور اگر خاوند دينے سے انكار كر دے تو كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

مہر معجل اور غير معجل يعنى جلدى دينا اور ادھار كرنا جائز ہے؛ اسى طرح كچھ پہلے اور كچھ بعد ميں دينا بھى جائز ہے اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 131069 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

بيوى كى رخصتى ہو جائے اور دخول يا خلوت صحيحہ ہونے كى صورت ميں بيوى پورے مہر كى مستحق ہوگى چاہے مہر معجل ہو يا غير معجل.

مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے علماء كرام كہتے ہيں:

" دخول و رخصتى سے بيوى پورے مہر كى مستحق ہو گى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 19 / 56 ).

دوم:

مہر مؤخل خاوند كے ذمہ قرض ہے، اور خاوند پر بيوى كے حقوق ميں سے ايك حق ہے، اگر شرط ركھى گئى ہو تو شرط كے مطابق اس كى ادائيگى كرنا لازم ہو گى، يا پھر خاوند اور بيوى كے معاشرے ميں جو عادت ہو اس كے مطابق ادائيگى كى جائيگى، جس پر لوگ عمل كر رہے ہوں، بالكل ايسے ہى جيسے كوئى چيز كسى شرط كے ساتھ مشروط ہو.

اگر عقد نكاح ميں مہر مؤخر كى كوئى مدت مقرر كى گئى ہو مثلا ايك يا دو برس يا اس سے كم يا زيادہ تو مدت پورى ہونے پر خاوند كے ذمہ مہر كى ادائيگى واجب ہوگى، خاوند كو اس ميں ليت و لعل سے كام نہيں لينا چاہيے، كيونكہ يہ مہر بھى باقى قرض كى طرح ايك قرض ہے، اگر ادائيگى كى استطاعت ركھتا ہو تو مدت پورى ہونے پر جس ميں تاخير اور ليت و لعل سے كام لينا جائز نہيں.

اور اگر مہر مؤخر كى كوئى مدت متعين نہ كى گئى ہو تو پھر طلاق وغيرہ يا دونوں ميں سے ايك كى وفات كے وقت مہر كا مطالبہ كيا جائيگا، اگر پہلے خاوند فوت ہو جائے تو بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ وصيت پورى كرنے اور ورثاء ميں وراثت كى تقسيم سے قبل تركہ و وراثت سے مہر وصول كرے، اور اگر كچھ باقى بچے تو پھر وراثت ميں سے اپنا مكمل حصہ بھى وصول كرے.

اور اگر پہلے بيوى فوت ہو جائے تو بيوى كے ورثاء كو حق حاصل ہے كہ وہ عورت كے دوسرے اموال كى طرح مؤخر مہر كى وصولى كريں، اور يہ مہر بھى عورت كے دوسرے مال كى طرح ورثاء ميں حصوں كے مطابق تقسيم كيا جائيگا، ان ورثاء ميں ا سكا خاوند بھى شامل ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فصل: كچھ مہر مؤجل ركھنا اور مہر مؤجل كا حكم…

اور جس پر خاوند اور بيوى كا اتفاق ہو كہ وہ بعد ميں طلب كيا جائيگا چاہے اس كى مدت نہ بھى مقرر كى گئى ہو، بلكہ خاوند كہے ك ايك سو معجل اور ايك سو مؤخر؛ تو صحيح يہى ہے كہ مہر مؤخر كا مطالبہ صرف موت يا عليحدگى كى صورت ميں ہى كيا جائيگا، قاضى ابو يعلى اور مسلك كے قديم مشائخ كا يہى اختيار ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے بھى اسے اختيار كيا، اور امام نخعى شعبى اور ليث بن سعد كا قول بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 81 ).

شيخ سعدى رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اگر كچھ مہر شادى كے وقت فورى ادائيگى اور كچھ بعد ميں ادا كرنے پر شادى كى جائے تو كيا يہ صحيح ہے يا نہيں ؟ عادت يہ ہے كہ باقى مانندہ مہر موت يا عليحدگى كے وقت ہى ادا كيا جاتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ مہر مؤخر صحيح ہے؛ چاہے وہ زبانى طور پر بولا گيا ہو يا پھر ان كے ہاں عادت اور رواج ہو.

اس بنا پر عورت يا عورت كے خاندان والوں كے ليے خاوند كے نكاح ميں رہتے ہوئے مہر مؤخر كى ادائيگى كا مطالبہ كرنا صحيح نہيں، اور اسى طرح مہر مؤخر كى ادائيگى كے ليے اپنے آپ كو خاوند سے روك لينا بھى جائز نہيں ہوگا؛ كيونكہ عقد نكاح كے وقت انہوں نے مذكورہ مہر مؤخر پر اتفاق كيا ہے.

اور اگر بيوى ميكے جا كر بيٹھ جائے اور ميكے والے يہ مطالبہ كريں كہ ہم تو اپنى بچى كو اسى صورت ميں سسرال جانے ديں گے جب مہر مؤخر ادا كيا جائيگا، تو ان كا يہ مطالبہ ناحق ہے، اور وہ عورت كو اس كے خاوند سے ناحق روك رہے ہيں، اگر وہ اس حجت پر عورت كو خاوند كے پاس نہيں جانے ديتے تو جب تك بيوى اپنے خاوند كے پاس نہيں جاتى اسے نان و نفقہ نہيں ملےگا؛ كيونكہ وہ خاوند كى نافرمان كہلائيگى، اور بغير كسى حق كے نافرمانى كرنے والى عورت كو نفقہ نہيں ملے گا " انتہى

ديكھيں: الفتاوى السعديۃ ( 502 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا عورت كا مہر مؤخر كرنا صحيح ہے ؟ اور كيا يہ خاوند كے ذمہ قرض ہے جس كى ادائيگى لازم ہو گى ؟ اور كيا اس ميں زكاۃ واجب ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" مہر مؤخر جائز ہے اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو عہد پورے كرو، تمہارے ليے چرنے والے چوپائے حلال كيے گئے ہيں، سوائے ان كے جو تم پر پڑھے جائيں گے، اس حال ميں كہ شكار كو حلال جاننے والے نہ ہو، جب كہ تم احرام والے ہو، بے شك اللہ فيصلہ كرتا ہے جو چاہتا ہے المآئدۃ ( 1 ).

معاہدہ كو پورا كرنے ميں اس شرط پر بھى عمل كرنا ضرورى ہے جو معاہدے ميں ركھى گئى ہے.

اس ليے اگر كسى شخص نے سارا يا كچھ مہر مؤخر دينے كى شرط ركھى تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وقت متعين كيا گيا ہو تو وقت مقررہ پر ادائيگى كرنا ضرورى ہے، اس مدت كے پورا ہونے پر وہ ادا كيا جائيگا.

اور اگر مدت مقرر نہ كى گئى ہو تو پھر طلاق يا فسخ نكاح كى بنا پر عليحدگى يا موت كى بنا پر ادائيگى كرنا ہوگا، اور مہر مؤجل خاوند كے ذمہ قرض ہے؛ باقى قرض كى طرح وقت پورا ہونے پر ادائيگى كا مطالبہ كيا جائيگا، چاہے زندگى ميں ہو يا موت كے بعد.. "

ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل بن العثيمين ( 18 / 31 ).

شيخ رحمہ اللہ سے يہ بھى سوال كيا گيا:

خاوند مالدار ہونے كے باوجود مہر مؤخر كى ادائيگى كرنے سے انكار كر رہا ہے؛ كيونكہ عقد نكاح كے وقت ولى كے ساتھ اتفاق يہ ہوا تھا كہ موت يا طلاق كى صورت ميں ادائيگى كرنا ہو گى، اب بيوى كو اس كى شديد ضرورت بھى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" حكم يہ ہے كہ شرط پر عمل كيا جائيگا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شروط پر قائم رہتے ہيں "

جب خاوند نے شرط ركھى تھى كہ موت يا عليحدگى دونوں ميں سے ايك مدت تك مہر مؤخر ہے تو اسے اپنى شرط پر قائم رہنا چاہيے " انتہى

ديكھيں: اللقاء الشہرى ( 2 / 361 ـ 362 ).

سوم:

دو اہم چيزوں پر متنبہ رہنا ضرورى ہے:

پہلى:

عورت كو اپنے خاوند كى حالت كا خيال كرنا چاہيے كہ وہ تنگ دست ہے يا مالدار، اس ليے تنگ دستى كى صورت ميں بيوى كو مہر مؤخر كا مطالبہ نہيں كرنا چاہيے، اور اگر اچھى حالت بھى ہو ليكن بيوى كو مال كى ضرورت نہ ہو اور بيوى ديكھے كہ خاوند ابھى مہر مؤخر كا مطالبہ اچھا نہيں سمجھتا تو عقل و حكمت كا تقاضا يہى ہے كہ مطالبہ مؤخر كر ديا جائے، تا كہ ان كى زندگى اچھى بسر ہوتى رہے، بلكہ اگر وہ ديكھے كہ خاوند نفرت كرتا ہے تو بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ آپس ميں محبت پيدا كرنے كے ليے خاوند كو اپنے مال ميں سے كچھ نہ كچھ اور دے تا كہ خاوند كا دل موہ سكے اور اس كى جانب مائل ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر كوئى عورت اپنے خاوند سے كسى قسم كى زيادتى يا بے رخى سے ڈرے تود ونوں پر كوئى گناہ نہيں كہ آپس ميں كسى طرح كى صلح كر ليں، اور صلح بہتر ہے، اور تمام طبعيتوں ميں حرص ( حاضر ) ركھى گئى ہے، اور اگر تم نيكى كروا ور ڈرتے رہو تو بے شك اللہ اس ميں سے جو تم كرتے ہو ہميشہ سے پورا باخبر ہے النساء ( 128 ).

دوسرى:

خاوند كو بھى اپنى اس بيوى كے حق كا خيال كرنا چاہيے جس كى اس نے شرمگاہ حلال كى ہے، وہ اس كے حقوق كى پورى ادائيگى كرے، اور اس ميں كسى بھى قسم كى كوتاہى و كمى نہ كرے، خاص كر جب ديكھے كہ بيوى كو اس حق كى ضرورت بھى ہے، چاہے ابھى اس كى ادائيگى كا وقت نہيں آيا اسے مہر ادا كر دينا چاہيے.

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:

" تم ميں بہتر شخص وہ ہے جو ادائيگى كے اعتبار سے اچھا ہو " متفق عليہ.

اور ايك دوسرى حديث ميں فرمايا:

" يقينا وہ شروط سب سے زيادہ وفا كا حق ركھتى ہيں جن سے تم نے شرمگاہ كو حلال كيا ہے " متفقہ عليہ.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android