ہمارے ملك ميں رواج ہے كہ جب كسى خاندان والوں كا بچہ يا بچى پہلا روزہ ركھتا ہے تو خاندان والے اس كى مناسبت سے افطارى كى دعوت كرتے ہيں جس ميں خاندان كے سب افراد كو مدعو كيا جاتا ہے، اور اسے بچہ كا پہلا روزہ ركھنے كا جشن كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے، ميں درج ذيل اشياء معلوم كرنا چاہتا ہوں:
اول:
اس طرح كى دعوت اور تقريب منانے كا شرعى حكم كيا ہے اور اگر اس تقريب كى دعوت كى جائے تو كيا اسے قبول كرتے ہوئے كھانا كھانا جائز ہے ؟
دوم:
كسى معين جگہ پر افطارى كى دعوت كى تقريبات منانے كى سوچ كيسى ہے ؟
سوم:
اكثر مساجد ميں ستائيس رمضان كى رات قرآن مجيد ختم كيا جاتا اور مساجد ميں مٹھائى تقسيم كى جاتى ہے؛ اس كے متعلق اسلامى حكم كيا ہے ؟
اللہ تعالى آپ كى جہود و سعى قبول كرتے ہوئے آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
بچے كا پہلا روزہ ركھنے پر جشن منانا
سوال: 146206
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
بچے يا بچى كے پہلا روزہ ركھنے كى تقريب منانے ميں ان شاء اللہ كوئى حرج نہيں، ليكن صرف اسے ايك بار پر ہى منحصر كيا جائے اور ہر برس بار بار نہ منايا جائے، بچے كى اس اطاعت تك پہنچنے كى خوشى منانے ميں كوئى حرج نہيں.
اور اسى طرح بچے كو ايسا كرنے پر ابھارنے اور اسے سمجھانے كے ليے بھى اس طرح كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے كہ اسے يہ سمجھايا كہ تمہارى زندگى ميں روزہ ركھنا ايك عظيم واقعہ ہے جس كى تم ابتدا كر رہے ہو اور ہر برس رمضان كے روزے ركھنا ہيں.
اور يہ ايك ايسى نعمت ہے جس پر اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ادا كرنا چاہيے، بعض اہل علم نے ہر قسم كى خوشى حاصل ہونے كے وقت كھانے كى دعوت پكانے كو مستحب قرار ديا ہے اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ بچے كے قرآن مجيد ختم كرنے پر دعوت كى جائے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 89705 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اگر افطارى كى دعوت ميں جمع ہونے كا مقصد آپس ميں محبت و الفت پيدا كرنا ہو، اور خاص كر جب افطارى كى دعوت ميں شامل ہونے والے آپس ميں عزيز و اقارت اور رشتہ دار ہوں، يا پھر دور رہنے والے، اور يہ دعوت افطار ان ميں ايك دوسرے سے تعلق قائم ركھنے اور آپس ميں رحمدلى كرنے پر ابھارتى ہو، اور مسلمان خاندان ميں ايك دوسرے كے ساتھ زيادہ ربط پيدا كرنے كا باعث ہو.
يا پھر اس ميں مسلمانوں كو كھانا كھلانے اور افطارى كرانے ميں معاونت ہوتى ہو، يا اس طرح كے دوسرے صحيح مقاصد ہوں تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ ايك اچھا كام ہے، مقاصد كے اعتبار سے اس ميں رغبت دلائى جائے.
ليكن اس ميں يہ اعتقاد نہيں ركھنا چاہيے كہ يہ اصل ميں سنت ہے، يا اس دعوت ميں شامل ہونے والے اسے دوسرے شرعى تہوار كى طرح كوئى تہوار نہ بنا ليں، كہ وہ كسى معين دن يا پھر معين طريقہ پر جمع ہونا شروع ہو جائيں اور يہ خيال كرنے لگيں كہ اسے شريعت ميں كوئى خاص فضيلت حاصل ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
مساجد ميں اعلان كيا گيا ہے كہ ہر جمعرات كے دن افطارى كا انتظام ہوگا جو بھى افطارى كرنا چاہے وہ مسجد ميں آ كر افطارى كر سكتا ہے، اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس اعلان ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ خير و بھلائى كا اعلان ہے جس كا مقصد نہ تو خريد و فروخت ہے اور نہ ہى كچھ اور، بلكہ حرام تو يہ ہے كہ مساجد ميں خريد و فروخت كا اعلان كيا جائے، يا پھر كرايہ وغيرہ كا اعلان جن امور كے ليے مساجد نہيں بنائى گئيں، ليكن خير و بھلائى اور كھانا كھلانا اور صدقہ ميں كوئى حرج نہيں.
رہا يہ مسئلہ كہ آيا يہ اجتماع عبادت كے ليے جمع ہونے كے غير مشروع اجتماع ميں شامل ہوتا ہے يا نہيں، حقيقت ميں انہوں نے اجتماعى روزہ ركھنے كا اعلان نہيں كيا، بلكہ انہوں نے تو صرف افطارى كا اعلان كيا ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں، واللہ تعالى اعلم " انتہى
سوم:
رمضان المبارك كى ستائيسويں رات آخرى عشرہ كى رات ہے، جس ميں ليلۃ القدر ہو سكتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحيح فرمان كے مطابق يہى ہے كہ آخرى عشرہ ميں طاق رات ميں ہوتى ہے، ليكن يہ ہے كہ ليلۃ القدر متعين نہيں كى گئى كہ يہ ستائيسويں رات ميں ہى ہے.
صحيح يہى ہے كہ يہ رات منتقل ہوتى رہتى ہے اور باقى طاق راتيں بھى اس ميں شامل ہے كبھى ستائيسويں اور كبھى دوسرى ميں ہوگى، ليكن ستائيسويں رات كى اميد زيادہ ہے.
اس بنا پر بالجزم يہ كہنا كہ ليلۃ القدر ہميشہ ستائيسويں رات ميں ہوتى ہے صحيح نہيں، اور نہ ہى ايسا اعتقاد ركھنا چاہيے، اور اگر اس رات ميں ليلۃ القدر كى زيادہ اميد ركھتے ہوئے اس رات زيادہ عبادت كرے اور زيادہ جدوجھد كرے تو ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں ہے.
ليكن اسے قرآن مجيد ختم كرنے كے ليے مخصوص كر لينا ايسا عمل ہے جو نہيں كرنا چاہيے، تا كہ لوگ يہ اعتقاد نہ ركھنا شروع كر ديں اور بالجزم كہنے لگيں كہ يہى ليلۃ القدر ہے، اس كے متعلق تو ہمارے علم ميں سلف سے كوئى دليل نہيں.
رہا مٹھائى تقسيم كرنا تو ہمارے علم كے مطابق اس كى كوئى دليل نہيں، ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اسے ايك قسم كا تہوار بنا ليا گيا ہے، اس ليے اس كى تخصيص كرنا مشروع نہيں ہے، بلكہ عمدا اس رات ميں يا پھر كسى اور رات ميں ايسا كرنا مشروع نہيں، كيونكہ اسے كوئى فضيلت حاصل نہيں.
اور اگر مٹھائى تقسيم كرنے كا مقصد ان بچوں ميں محبت و مودت اور ان كے ساتھ احسان كرنا ہے تو بھى اسے اس رات كے ساتھ مخصوص نہيں كرنا چاہيے، بلكہ جب بھى اس كى ضرورت ہو ايسا كرنا مشروع ہوگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب