حدیث ( مائلات ممیلات ) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا معنی کیا ہے ؟
مائلات ممیلات کی شرح
سوال: 14627
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( دوقسمیں جہنمی ہیں میں نے انہیں دیکھا نہیں ، کچھ مردوں کےپاس گاۓ کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے ( اوردوسری قسم ) اوروہ عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود بھی ننگیں ہونگي وہ مائل ہونے والی اوردوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہونگی ان کے سربختی اونٹوں کی کوہان جیسے اونچے ہونگے ، یہ دونوں نہ توجنت میں داخل ہونگی اور نہ ہی اس کی ہوا کو پائيں گي ) ۔
اس حدیث میں یہ بہت سخت اور عظیم وعید ہے اور حدیث میں جوکچھ بیان ہوا ہے اس سے بچنا واجب اورضروری ہے ۔
وہ اشخاص جن کےہاتھ میں گاۓ کی دم جیسے کوڑے ہوں یہ وہ لوگ ہیں جوپولیس وغیرہ میں سےلوگوں کوناحق مارنے پرمقرر کیے جائيں چاہے یہ حکومت کے حکم سے ہویا حکومت کے حکم کے بغیر اس لیے کہ حکومت کی اطاعت معروف اور نیکی کے کاموں میں کی جاۓ گی جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اطاعت تونیکی کے کام میں ہے )
اور دوسری حدیث میں فرمایا :
( خالق ( اللہ تعالی ) کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے ) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (کاسیات عاریات مائلات ممیلات ) کی اہل علم نے شرح یہ کی ہے کہ :
” کا سیات ” یعنی اللہ تعالی کی نعمتیں ان پرہیں اور” عاریات ” یعنی وہ ان نعتوں کا شکراداکرنے سے عاری ہیں اوراللہ تعالی کی اطاعت نہیں کرتیں اورنہ ہی وہ گناہ اور غلط کام ہی ترک کرتی ہیں حالانکہ ان پر اللہ تعالی کے انعامات بہت ہی زیادہ ہیں جو کہ مال ودولت وغیرہ کی شکل میں ہیں ۔
اوراس حدیث کا ایک اور معنی بھی کیا گیا ہے کہ کاسیات کا معنی یہ ہے کہ وہ ایسے کپڑے پہنے ہوۓ ہونگي جس میں ستر پوشی نہیں ہوگی یا تو اس کپڑے کی باریکی کی بنا پر اور یا پھر اتنے چھوٹے ہوں گے یہ کپڑوں کا مقصد ہی حاصل نہیں ہوگا ، تواسی لیے فرمایا کہ ” عاریات ” اس لیے کہ جوکپڑا وہ پہنے ہوۓ ہیں اس سے ستر پوشی نہیں ہوتی ۔
” مائلات ” یعنی وہ عفت عصمت سے علیحدہ ہونے والی ہیں یعنی ان کے گناہ اورمعاصی ان عورتو ں کی طرح ہیں جوکہ فحاشی کی عادی ہوں یاپھر فرآئض کی ادائيگي میں کوتاہی کا شکار ہوں مثلا نماز وغیرہ میں ۔
” ممیلات ” یعنی دوسروں کومائل کرنے والی ہیں یعنی انہیں شروفساد کی دعوت دیتی ہیں ، تو وہ اپنے افعال اور اقوال سے دوسروں کو فساد اورمعاصی کی طرف مائل کرتی اور وہ ایمان نہ ہونے یا پھر ایما ن کی کمی کی بنا پر فحاشی پرمستمر رہتی ہیں ۔
تواس صحیح حدیث سے مقصود اورمراد یہ ہے کہ ظلم اور عورتوں اور مردوں سے جوفساد ہے اس سے بچا جاۓ ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( ان کے سربختی اونٹوں کی کوہان جیسے اونچے ہونگے ) کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ : وہ عورتیں جو اپنے سروں کو بالوں وغیرہ سے بڑا کرتی ہیں حتی کہ بختی اونٹ کی مائل کوہان کی مانند ہوجاتا ہے ۔
اور بختی اونٹ کی ایک قسم ہے جس کی دو کوہانہیں اور ان دونوں کے درمیان جھکاؤاورمیلان ہوتا ہے کہ یہ ایک طرف اور وہ کوہان دوسری طرف جھکی ہوتی ہے ، تو یہ عورتیں جب اپنے سروں کو بالوں وغیرہ سے ( جوڑا باندھ کر ) بڑا کرتی ہيں تو ان کوہانوں کی مشابھت اختیار کرتی ہیں ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ یہ فرمان کہ :
( نہ تووہ جنت میں داخل ہونگي اور نہ ہی جنت کی ہوا ہی پا سکیں گی ) یہ بہت ہی سخت قسم کی وعید ہے لیکن اگروہ مسلمان ہی مریں تواس سے ان کا کفر اور جہنم میں مستقل رہنا لازم نہیں آتا ، جس طرح کہ سارے گناہ ہیں ، بلکہ وہ اور دوسرے گنہگار سب کے سب گناہوں کی وجہ سے آگ کی وعید دیے گۓ ہیں ۔
لیکن وہ سب اہل معاصی وگنہگاراللہ تعالی کی مشیئت کے تابع ہیں اگراللہ سبحانہ وتعالی چاہے توان کے گناہ معاف فرما دے اوراگر چاہے تو انہیں عذاب سے دوچار کردے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ النساء میں دوجگہ پرفرمایا ہے :
یقینااللہ تعالی شرک کومعاف نہیں فرماتا اور اس کے سواجسے چاہے بخش دیتا ہے النساء ( 48 ) ۔
اورجواہل معصیت اورگنہگار جہنم میں جائيں گے وہ اس میں کفار کی طرح مستقل اورہمیشہ نہیں رہیں گے ، اہل سنت کے ہاں تووہ لوگ بھی جوکہ اہل معاصی اورگنہگار میں سے مخلد فی النارہیں مثلا قاتل ، زانی ، اور خودکشی کرنےوالا ، تو ان کا مخلدفی النار بھی ایسا نہیں جس طرح کہ کفار ہیں بلکہ یہ ایسی ہمیشگی ہے جس کی انتہاء ہوگی لیکن خوارج اور معتزلہ کا عقید اھل سنت کے خلاف ہے اور اسی طرح جو خوارج اورمعتزلہ کے نقش قدم پرچلنے والے بدعتی ہیں ان کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ یہ لوگ کافروں کی طرح مخلد فی النار ہیں ۔
اھل سنت نے یہ عقیدہ اس لیے اپنایا ہے کہ احادیث صحیحہ تواتر کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کےگنہگاروں کے لیے سفارش کریں گے جسے اللہ تعالی کئ بار شرف قبولیت بخشے گا ، اور ہرباران کے لیے ایک حد مقرر کردی جاۓ گی وہ اتنے اشخاص کو جہنم سے نکل لیں ۔
اوراسی طرح باقی رسول اورمومن اورفرشتے یہ سب کے سب اللہ تعالی کی اجازت سے سفارش کریں گے ، اور اسی طرح اللہ تعالی اہل توحیدمیں سے جسے چاہے گاوہ ان مسلمانوں کے متعلق جو اپنے گناہوں اورمعاصی کی بنا پرجہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے سفارش کریں گے ، اور جہنم میں باقی کچھ ایسے گنہگار رہ جائيں گے جنہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش شامل نہیں ہوگی اللہ تبارک وتعالی انہیں اپنی رحمت واحسان سے نکال دیں گے تو آگ میں صرف کفار ہی رہ جائيں گے جوکہ مستقل اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے کفارکے بارہ میں فرمایا ہے :
جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان کے لیے اسے اوربھڑکا دیں گے الاسراء ( 97 ) ۔
اورفرمان باری تعالی ہے :
اب تم ( اپنے کیے کا ) مزہ چکھو ہم تمہارا عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے النباء ( 30 ) ۔
اوراللہ تعالی نے بتوں کی عبادت کرنے والے کافروں کے بارہ میں فرمایا :
اسی طرح اللہ تعالی انہیں حسرت دلانے کے لیے ان کے اعمال دکھاۓ گا اوروہ جہنم میں سے ہرگزنہیں نکلیں گے البقرۃ ( 167 ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کے ارشاد کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ یقین جانو کہ کافروں کے لیے جوکچھ زمین میں ہے بلکہ اسی طرح اتنا ہی اوربھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں توبھی یہ ناممکن ہے کہ ان کا یہ فدیہ قبول کرلیا جاۓ ، ان کے لیے تو دردناک عذاب ہی ہے ۔
وہ چاہیں گہ وہ جہنم سے نکل بھاگیں لیکن وہ ہرگز اس میں نہیں نکل سکيں گے اوران کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہوگا } المائدۃ ( 36 – 37 ) ۔
اس موضوع میں آیات تو بہت ساری ہیں ، ہم یہی پرختم کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے جھنمیوں کے حالات سے عافیت سلامتی طلب کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے بچا کر رکھے آمین ۔ .
ماخذ:
مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 6 / 355 )