سوال: کیا میں کسی طلاب علم کیلئے کمپیوٹر خریدنے کی غرض سے زکاۃ کی رقم استعمال کر سکتا ہوں، اس کیلئے یہ بھی شرط لگائی جائے گی کہ اسے کسی غلط جگہ استعمال نہیں کرنا، بلکہ دعوتی سرگرمیوں کیلئے استعمال میں لانا ہے۔
کسی طالب علم کیلئے کمپیوٹر خریدنے کی غرض سے زکاۃ کی رقم استعمال کرنا درست ہے؟
سوال: 146307
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جی ہاں، قابل اعتماد دینی کام کرنے والے لوگوں کیلئے دعوتی سرگرمیوں میں استعمال کرنے کی غرض سے زکاۃ کی مد سے کمپیوٹر خرید كر ديا جا سکتا ہے، تا کہ انہیں خطاب کی تیاری، شرعی مسائل کے متعلق بحث و تمحیص، مفید علمی ویب سائیٹس ، اور دیگر مفید علمی مواد ڈاؤنلوڈ کرنے میں آسانی ہو، اس کی دلیل یہ ہے کہ تشنگان علم پر خرچ کرنا بھی فی سبیل اللہ انفاق کے زمرے میں آتا ہے، اور فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبہ:60]
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (28/337) میں ہے کہ:
"طلباء کو زکاۃ دینے کے بارے میں تمام فقہائے کرام متفق ہیں، اس بارے میں حنفی، شافعی، حنبلی فقہائے کرام نے واضح صراحت کی ہے، جبکہ مالکی فقہاء کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے۔۔۔، جبکہ کچھ حنفی فقہائے کرام ایسے مالدار طالب علم کی لیے، جس نے اپنے آپ کو حصولِ علم کیلئے وقف کر رکھا ہو، زکاۃ لینا جائز قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔"
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اپنی مصروفیات اور حالت کے پیش نظر کوئی مناسب ذریعہ معاش اپنا سکتا ہو، لیکن شرعی علوم حاصل کرنے کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو کیونکہ اگر معاش میں لگ گیا تو علم حاصل نہیں کر پائے گا، تو ایسی صورت میں اس کیلئے زکاۃ وصول کرنا جائز ہے، کیونکہ شرعی علوم کی تعلیم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس کے پاس دینی کتب خریدنے کی استطاعت نہیں ہے تو انہوں نے جواب دیا:
"دین و دنیا کی ضروریات پوری کرنے کیلئے جن کتب کی اشد ضرورت ہے انہیں زکاۃ کے مال سے خرید سکتا ہے"
بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غالب امید یہی ہے کہ یہ زکاۃ کے مصارف سے خارج نہیں ہے؛ کیونکہ کتب کی ضرورت طالب علم کو اسی طرح پڑتی ہے جیسے اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے"
اور فقہائے احناف نے دینی طلباء کیلئے زکاۃ ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے کے بارے میں بالکل واضح لفظوں میں اجازت دی ہے" انتہی مختصراً
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تعلیم سکھانا اور سیکھنا بھی جہاد کی ایک قسم بنتی ہے، حصول علم جہاد کی اقسام میں اس طور پر شامل ہے کہ یہ بھی فرض کفایہ ہے[اور جہاد بھی فرض کفایہ ہے]" انتہی
"الاختيارات العلمية" (ص56)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے دینی تعلیم اور تبلیغ کو جہاد کے مساوی اور ہم پلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
ترجمہ: مومنوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کے سب ہی جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں ۔ انہیں چاہیے کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ دین سمجھنے کے لئے نکلیں تاکہ جب وہ واپس آئیں تو اپنے لوگوں کو [برے انجام سے] ڈرائیں۔ اس طرح شاید وہ برے کاموں سے بچے رہیں۔[التوبہ : 122]
فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو علم حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر یکسو کر لے تو اس کے اخراجات زکاۃ میں سے پورے کیے جا سکتے ہیں، چاہے وہ کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن حصولِ علم کمانے میں رکاوٹ بن رہا ہو، تاہم ایسا شخص جو کمانے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن عبادت میں مصروف ہے تو اسے زکاۃ نہیں دی جا سکتی۔۔۔ لیکن اگر مذکورہ افراد حصول علم اور دعوتی سرگرمیوں کیلئے مکمل طور پر یکسو نہ ہوں بلکہ ساتھ ساتھ اپنا ذاتی ذریعہ معاش بھی چلا رہے ہوں تو اس صورت میں انہیں "مجاہد" کی مد میں سے زکاۃ نہیں دی جائے گی، کیونکہ یہ لوگ مکمل طور پر دعوتی سرگرمیوں اور حصول علم کیلئے یکسو نہیں ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے مجاہد کو بھی زکاۃ میں سے اسی وقت دیا جاتا ہے جب وہ مکمل طور پر جہاد کیلئے وقف ہو" انتہی مختصراً
"فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (18/251)
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا طالب علم زکاۃ کی رقم میں سے اپنے تعلیمی سلسلے کو مکمل کرنے کیلئے کتب کی خریداری کر سکتا ہے؟ "
تو انہوں نے جواب دیا:
"مذکورہ صورت حال میں اگر اسے ان کتابوں کی اشد ضرورت ہے تو وہ زکاۃ کی رقم سے کتابیں خرید سکتا ہے" انتہی
http://ibn-jebreen.com/ftawa.php?view=vmasal&subid=2742&parent=786
چنانچہ اگر طالب علم کیلئے کتابوں کی خریداری زکاۃ کے مال سے جائز ہے تو اس وقت کمپیوٹر بھی کتب کی جگہ لے چکا ہے، کیونکہ یہ بھی حصولِ علم کا ذریعہ ہے، بلکہ اب کمپیوٹر اللہ کی طرف دعوت کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب