ميرى بہن گاڑى كے حادثہ ميں وفات پا چكى ہے اور اس كى تين بيٹياں ہيں سب سے بڑى كى عمر پانچ برس ہے ان بچيوں كا حق پرورش كسے حاصل ہے، كيا باپ كو يا كہ نانى كو ؟
يہ علم ميں رہے كہ اگر نانى كو حق پرورش حاصل ہے تو باپ اس كى شرعى دليل مانگتا ہے، اس وقت بچياں اپنى نانى كے ساتھ رہتى ہيں اور ان كا باپ انہيں اپنے پاس ركھنا چاہتا ہے، حادثہ كے وقت بچيوں كا باپ ہى گاڑى چلا رہا تھا تيز رفتارى كى بنا پر حادثہ پيش آيا جس ميں ميرى بہن فوت ہو گئى كيا اس پر ديت لازم آتى ہے يا نہيں اور كيا يہ قتل خطا شمار ہو گا يا نہيں ؟
كيا حق پرورش ميں باپ پر نانى كو مقدم كيا جائيگا ؟
سوال: 146836
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
حضانہ: كا معنى يہ ہے كہ چھوٹے بچے كو نقصاندہ چيز سے محفوظ كيا جائے، اور اس كى تربيت و پرورش كرنے كو حضانہ كہا جاتا ہے.
جمہور فقھاء كرام كہتے ہيں كہ اگر ماں فوت ہوجائے يا پھر پرورش كى اہل نہ ہو تو حق پرورش نانى كو حاصل ہو جائيگا چاہے نانى كى ماں يا اس كى ماں ہى كيوں نہ ہو ”
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 197 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 15 / 122 ).
ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ نانى پر باپ كو مقدم كيا جائيگا، شيخ ابن تيميہ اور ابن قيم رحمہم اللہ نے يہى اختيار كيا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ نے اس مسئلہ كے اختلاف بڑى شرح و بسط كے ساتھ بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
” جب عورتيں بچوں كى تربيت كرنا زيادہ جانتى ہيں، اور انہيں پرورش و تربيت كى زيادہ قدرت ہوتى ہے، اور وہ زيادہ صبر و تحمل اور بچے پر نرمى و رحمدلى كرنے والى ہوتى ہيں اسى ليے انہيں حق پرورش ميں باپ پر مقدم كيا گيا ہے.
اور جب مرد حضرات بچے كى مصلحت كے حصول كى زيادہ طاقت ركھتے ہيں، اور بچے كے ليے زيادہ احتياط والے ہوتے ہيں اس ليے باپ كو ماں پر مقدم كيا گيا ہے، چنانچہ ماں كو حق پرورش ميں مقدم كرنا محاسن شريعت ميں شامل ہوتا ہے، اور بچوں كے ليے احتياط اور ديكھ بھال ميں شامل ہے، اور باپ كو مال اور شادى كى ولايت ميں مقدم كيا گيا ہے.
تو كيا ماں كو ممتا كى وجہ سے باپ پر مقدم كيا گيا ہے يا كہ اس ليے كہ عورتيں باپ كے مقابلہ ميں پرورش كے مقاصد ميں زيادہ بہتر ہوتى ہيں تو ماں كو مؤنث ہونے كى وجہ سے مقدم كيا گيا ہے ؟
اس كے بارہ ميں علماء كے دو قول ہيں: اور يہ دونوں ہى امام احمد رحمہ اللہ كے مذہب ميں ہيں، ان كا اثر ماں كے رشتہ داروں پر ماں كے عصبہ كو مقدم كرنے يا اس كے برعكس پر ظاہر ہوتا ہے، مثلا نانى اور دادى اور باپ كى جانب سے بھائى اور ماں كى جانب سے بہن، اور خالہ اور پھوپھى، اور ماں كى خالہ اور باپ كى خالہ، اور خالا كى اوپر والى اور ماں كى پھوپھى اور ان ميں سے جو باب كى جانب سے اوپر ہوں.
اس ميں امام احمد سے دو روايتيں ہيں: ايك تو يہ ہے كہ ماں كے رشتہ داروں كو باپ كے رشتہ داروں پر مقدم كيا جائيگا، اور دوسرى روايت يہ ہے اور يہى دليل كے اعتبار سے زيادہ صحيح ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے كہ: باپ كے رشتہ داروں كو مقدم كيا جائيگا.
خرقى رحمہ اللہ اپنى ” مختصر ” ميں يہى بيان كرتے ہوئے كہا ہے: باپ كى جانب سے بہن ماں كى جانب سے بہن اور خالہ سے زيادہ حقدار ہے، اور باپ كى خالہ ماں كى خالہ سے زيادہ حقدار ہے، اس بنا پر دادى نانى پر مقدم ہوگى جيسا كہ امام احمد رحمہ اللہ نے ايك روايت ميں بيان كيا ہے.
اور كہتے ہيں: صحيح يہ ہے كہ: برابرى كى حالت ميں مؤنث كو مقدم كيا جائيگا، جيسا كہ ماں اور باپ ميں برابرى كى حالت ميں ماں كو باپ پر مقدم كيا گيا ہے، چنانچہ برابر ہونے، اور پرورش و تربيت كے اسباب ميں عورت كے قوى و ممتاز ہونے كى وجہ سے مذكر كو مؤنث پر مقدم كرنے كى كوئى وجہ نہيں”
اور يہ بھى كہا ہے: اس سلسلہ ميں ہمارے استاج شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے ايك اور ضابطہ بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
” پرورش كے باب كو ضبط كرنے ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ: جب حق پرورش ولايت ميں شفقت و رحمت اور تربيت و نرمى معتبر شمار ہوتى ہے تو پھر ان صفات ميں سب لوگوں سے زيادہ حق تو عورت ہى ركھتى ہے، اور وہ اس كے رشتہ دار ہيں ان ميں سے زيادہ قريبى اور جس ميں پرورش كى زيادہ صفات پائى جائينگى اسے مقدم كيا جائيگا.
اور اگر ان ميں دو يا اس سے زائد جمع ہوں اور ان كا درجہ برابر ہو تو مؤنث كو مذكر پر مقدم كيا جائيگا، اس طرح ماں باپ پر مقدم ہوگى، اور نانى نانے پر اور خالہ ماموں پر اور پھوپھى چچا پر، اور بہن بھائى پر مقدم ہوگى.
اور اگر دونوں ہى مذكر ہوں يا پھر مؤنث ہوں ان ميں سے ايك كو قرعہ كے ذريعہ مقدم كيا جائيگا، يعنى درجہ برابر ہونے كى صورت ميں قرعہ ڈالا جائيگا، اور بچے سے ان كا درجہ مختلف ہو اور وہ ايك ہى جہت سے ہوں تو بچے سے جو زيادہ قريب ہے اسے مقدم كيا جائيگا، چنانچہ بہن كو بيٹى پر مقدم كيا جائيگا، اور خالہ كو والدين كى خالہ پر…
اور اگر دو جہتوں سے ہوں مثلا ماں اور باپ دونوں كے رشتہ داروں ميں سے مثلا پھوپھى اور خالہ، اور ماں كى جانب سے بہن اور ماں كى جانب سے بہن، اور دادى اور نانى، اور باپ كى جانب سے خالہ اور ماں كى جانب سے خالہ، تو اس ميں ايك روايت كے مطابق باپ كى جہت كو مقدم كيا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 438 ـ 451 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” مؤلف رحمہ اللہ نے جو يہ ترتيب ذكر كى ہے يہ كسى دليل پر مبنى نہيں اور نہ ہى كسى تعليل پر اور اس ميں كچھ تناقض سا پايا جاتا ہے اور اس پر دل بھى مطمئن نہيں ہوتا، اس ليے پرورش ميں ترتيب كے متعلق علماء كرام كے كئى ايك اقوال پائے جاتے ہيں، ليكن ان سب اقوال كى كوئى دليل نہيں ہے جس پر اعتماد كيا جاسكے.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: مطلق طور پر قريبى كو مقدم كيا جائيگا چاہے باپ ہو يا ماں يا پھر دھديال ميں سے يا ننھيال ميں سے اور اگر سب برابر ہوں تو عورت كو مقدم كيا جائيگا، اور اگر دونوں مرد ہوں يا عورتيں ہوں تو پھر ايك طرف قرعہ ڈالا جائيگا وگرنہ دھديال كى جہت كو مقدم كيا جائيگا…
ابن قيم رحمہ اللہ نے اسى ضابطہ كو راجح قرار ديتے ہوئے كہا ہے: يہ ضابطہ اقرب ترين ہے، اس بنا پر ماں اور دادے ميں ماں كو مقدم كيا جائيگا، كيونكہ زيادہ قريب ہے، اور باپ اور نانى يہاں باپ كو مقدم كيا جائيگا، كيونكہ يہ زيادہ قريب ہے، ماں اور باپ ميں سے ماں كو مقدم كيا جائيگا، كيونكہ يہ دونوں قربت كے اعتبار سے برابر ہيں، يہاں مؤنث كو مقدم كيا جائيگا، دادا اور دادى يہاں دادى كو مقدم كيا جائيگا، ماموں اور خالہ يہاں خالہ مقدم ہوگى، على ہذا القياس.
ماں كى جانب سے نانى اور باپ كى جانب سے دادى يہاں مؤلف كى ترتيب كے خلاف شيخ الاسلام ابن تيميہ كے قاعدہ اور اصول و ضابطہ كے تحت باپ كى جانب سے دادى كو مقدم كيا جائيگا، ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 536 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
يہ مسئلہ اہل علم كے ہاں اخلافى ہے، باپ اور نانى كو بچوں كى مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے سمجھوتہ كرنا چاہيے اور اگر وہ آپس ميں اختلاف كريں تو پھر شرعى عدالت فيصلہ كريگى.
دوم:
اگر تو خاوند نے گاڑى كى رفتار بہت زيادہ تيز كر كے كوتاہى كا ارتكاب كيا كہ اس رفتار ميں حادثہ كى صورت ميں گاڑى پر كنٹرول نہيں كيا جا سكتا تھا تو حادثہ كا سبب خاوند ہے، اور جو كچھ تلف ہوا خاوند ہى اس كى ادائيگى كريگا، اس طرح حادثہ ميں ہر فوت ہونے والے شخص كے قتل خطا كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اسى طرح اگر ميت كے ورثاء ديت كا مطالبہ كرتے ہيں تو وہ ديت ادا كريگا، ليكن ديت اس كے عصبہ پر ہوگى كيونكہ يہ قتل خطا ہے، اور اگر وہ ادا نہيں كر سكتے تو پھر خاوند پر ادا كرنا واجب ہوگى.
كيا تيز رفتارى حادثہ كا سبب تھى يا نہيں اس كے ليے تجربہ كار لوگوں سے دريافت كيا جائے.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” محمد بن ابراہيم كى جانب سے جناب شرعى عدالت عر عر كے رئيس كى جانب:
محترم جناب والا:
السلام عليكم و رحمہ اللہ و بركاتہ.
و بعد:
ہمارے پاس آپ كا ليٹر نمبر ( 125 ) بتاريخ ( 19 / 2 / 1383 ) جس ميں گاڑى كے حادثہ كے متعلق پوچھا گيا ہے كہ قصيم كے راستے ميں گاڑى الٹنے سے ايك شخص فوت ہوگيا اور دوسرے كى ہڈياں ٹوٹ گئيں، ڈرائيور كہتا ہے كہ:
حادثہ كا سبب گاڑى كا اگلا ٹائر پنكچر ہونا تھا، وگرنہ ميں نے ساٹھ سے زائد رفتار نہيں ركھى تھى اور بريك بھى صحيح تھيں اور ڈرائيور بھى ماہر تھا… الخ
جواب:
وحدہ:
اصل ميں ڈرائيور كا برى الذمہ ہونا ہے، اگر تو يہ ثابت ہو جائے كہ ڈرائيور كى كوتاہى اور قصور تھا مثلا رفتار زائد تھى يا پھر بريك ميں خلل تھا، يا ٹائر خراب تھے يا گاڑى اور لوڈ تھى تو پھر اس ميں ڈرائيور كى كوتاہى و قصور ہے، وگرنہ ان كے ليے اس پر سوائے قسم كے كچھ نہيں ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 11 / 278 ).
مزيد آپ سوال نمبر (93687 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب