كئى برس سے ميرے اور بيوى كے مابين جھگڑا چل رہا تھا اور ميں نے شديد غصہ كى حالت ميں طلاق كے الفاظ بول ديے شديد جھگڑے كى وجہ سے مجھے پتہ نہيں ميں نے كيا كہا.
ايك مولانا صاحب نے مجھے فتوى ديا كہ اس وقت دى گئى طلاق واقع نہيں ہوئى، اور پچھلے ماہ ميرى بيوى نے بچہ جنم ديا اور نفاس كى حالت ميں ہى ہمارا جھگڑا ہوا تو اس نے كمرہ كا دروازہ بند كر كے چابى چھپا دى تا كہ ميں باہر نہ نكل سكوں اور مشكل حل كروں.
اس كى بنا پر مجھے اور زيادہ غصہ آيا اور ميں نے جھگڑتے ہوئے اسے كہا: تم اكيلى رہنا چاہتى ہو، ميرا مقصد اسے طلاق دينے كا تھا، جھگڑا اور زيادہ ہوا تو ميں نے اسے كہا: تم واقعى طلاق لينا اور اكيلا رہنا چاہتى ہو ؟
وہ جواب ميں كہنے لگى: مجھے طلاق دے دو تا كہ ميں اس آگ سے راحت ميں آ جاؤں جس ميں زندگى بسر كر رہى ہوں لہذا ميں نے اسے طلاق دے دى.
يہ علم ميں رہے كہ ميں نے چابى لينے كى كوشش كى تا كہ گھر سے باہر جا سكوں، اور ميں نے اسے يہ بھى كہا كہ: نفاس كے بعد ميں تمہيں طلاق دے دونگا، ميرا مقصد دھمكى دينا تھا تا كہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے، اور ميں نكل سكوں اور معاملات اپنى حالت ميں آ جائيں.
ليكن بيوى ابھى طلاق لينے پر مصر رہى، تو ميں نے اسے ” تجھے طلاق ” كے الفاظ كہے، اور اس كے بعد ہم نے جو كچھ ہوا اس كے بارہ ميں بات چيت كى، اور وہ كہنے لگى اللہ كى قسم مجھے نہيں كہ ميں نے طلاق طلب كى تھى، اور نہ ہى ميرا يہ مقصد تھا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا طلاق واقع ہو گئى ہے، اور اگر واقع ہو گئى ہے تو كيا يہ پہلى طلاق شمار ہو گى يا دوسرى، اور اس كى عدت كيا ہے اور ميں بيوى سے رجوع كب كر سكتا ہوں، كيونكہ ابھى وہ نفاس كى حالت ميں ہے، اور ان ايام ميں نفاس ختم ہونے والا ہے.
اور كيا ميں اس كے سامنے لفظى طور پر شروط ركھ سكتا ہوں تا كہ اس سے رجوع كر سكوں اور وہ ان مشكلات كو دوبارہ پيدا نہ كرے جو پہلے بھى كرتى ہے.
يہ علم ميں رہے كہ ايك مولانا صاحب نے طلاق واقع ہونے كا فتوى ديا ہے، اور يہ نفاس ميں حرام ہے.
طلاق پر مصر بيوى كو نفاس كى حالت ميں طلاق دے دى
سوال: 146967
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مشروع طلاق يہ ہے كہ مرد بيوى كو ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں اس نے بيوى سے ہم بسترى نہ كى ہو، اور اگر وہ اسے حيض يا نفاس ميں طلاق ديتا ہے تو يہ طلاق بدعى كہلاتى ہے.
فقھاء كرام نے طلاق بدعى ميں اختلاف كيا ہے، جمہور كے ہاں يہ طلاق واقع ہو جائيگى، اور بعض فقھاء كہتے ہيں كہ طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ طلاق بدعى حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى جب آپ عورتوں طلاق ديں تو انہيں ان كى عدت كے آغاز ميں طلاق ديں الطلاق ( 1 ).
معنى يہ ہے كہ وہ جماع كے بغير طاہر ہوں، يہ قول اختيار كرنے والوں ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں اہل ميں سے ايك جماعت نے ان كے اسى قول كو اختيار كيا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى ہے:
” طلاق بدعى كى كئي ايك انواع و اقسام ہيں جن ميں يہ بھى شامل ہے كہ آدمى بيوى كو حيض يا نفاس يا پھر جس طہر ميں بيوى سے جماع كيا ہو طلاق دے، صحيح يہى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 58 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے كہ عورت كو نفاس اور حيض سے پاكى كى حالت ميں اور ايسى حالت ميں طلاق دى جائے جس ميں بيوى سے ہم بسترى نہ كى گئى ہو، تو يہ شرعى طلاق ہوگى.
ليكن اگر كوئى شخص حيض يا نفاس يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں بيوى سے ہم بسترى كى ہو يہ تو طلاق بدعى كہلاتى ہے، اور صحيح قول كے مطابق يہ طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب آپ عورتوں كى طلاق ديں ت وانہيں ان كى عدت ( كے آغاز ) ميں طلاق ديں الطلاق ( 1 ).
معنى يہ ہے كہ وہ جماع كے بغير پاك ہوں، اہل علم نے اس كى تفسير كرتے ہوئے يہى كہا ہے كہ وہ وہ جماع كے بغير طہر ميں ہوں، يا پھر حاملہ ہوں يہ تو عدت كے ليے طلاق ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 44 ).
مزيد آپ فتاوى شيخ ابن باز ( 21 / 286 ) كا مطالعہ بھى كريں.
اس بنا پر آپ نے جو طلاق دى ہے كہ عورت نفاس كى حالت ميں تھى تو يہ طلاق واقع نہيں ہوئى.
مزيد آپ سوال نمبر (110488 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات