ميں شادى شدہ ہوں اور ميرے بچے بھى ہيں، خاوند كے ساتھ مشكلات ختم نہيں ہوتيں حالانكہ ميرى جانب سے ہر طرح كى اصلاح كى كوشش كى گئى ليكن سب سے بڑى مشكل جب پر سارے اختلاف كا انحصار ہے اور يہ مشكل ( كبيرہ گناہ ميں شامل ہے ) جس كا وہ كئى ايك بار مرتكب ہو چكا ہے ميں نے تين بار سے بھى زائد مرتبہ طلاق كا مطالبہ كيا ہے ليكن وہ ميرے ساتھ سچى توبہ كا وعدہ كرتا ہے كہ معاملات صحيح ہو جائينگے.
ليكن جيسے ہى ميں واپس آتى ہوں تو تھوڑى ہى مدت كے بعد معاملات پھر ويسے ہى ہو جاتے ہيں، اب ميں گھر سے آ گئى ہوں اور طلاق كا مطالبہ كيا ہے، اور طلاق لينے پر ہى مصر ہوں، ليكن سسرال كى جانب سے معاملات كى اصلاح كى كوشش ہو رہى ہے، كہ وہ اس بار تبديل ہو گيا ہے، ليكن بار بار ايسا ہونے كى بنا پر ميں ان كے وعدوں كا بھروسہ نہيں ركھتى اور يہ سوچا ہے كہ اب ايك اسٹام لكھا جائے جس ميں خاوند اقرار كرے كہ اگر وہ يہ كام دوبارہ كرےگا تو طلاق ہو جائيگى يا ميں خود ورقہ لكھتى ہوں، جو تين اور بائن كبرى والى طلاق شمار ہوگى كہ اس كے ليے كبھى حلال نہ ہو سكوں.
اور اس پر دو گواہ بھى دستخط كريں تا كہ يہ صحيح اور شرعى ورقہ بن جائے، اور بالفعل اس سے طلاق واقع ہو جائے ؟
خاوند كو خاص برائى سے بچانے كے ليے طلاق كا ورقہ لكھنا چاہتى ہے
سوال: 148422
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى حالت سدھارے اور آپ كے ليے بہترى پيدا فرمائے جہاں بھى ہو.
دوم:
خاوند كے ليے طلاق كا كاغذ لكھنا كہ اگر خاوند نے وہى برائى دوبارہ كى تو بيوى كو طلاق ہو جائيگى، يہ مفيد بھى ہو سكتا ہے اور مفيد نہيں بھى ہو سكتا، ہو سكتا ہے يہ كاغذ خاوند كو طلاق كے خوف سے برائى كرنے سے روك سكتا ہے، ليكن يہ بھى ہو سكتا ہے كہ برائى كرے اور اسے خفيہ ركھے، اور طلاق واقع ہو جائے اور كسى كو علم ہى نہ ہو اور آپ اس كے سات حرام زندگى بسر كرتى رہيں.
طلاق لكھنے كے بارہ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا يہ صريح طلاق ميں شامل ہوتى ہے يا كہ كنايہ ميں ؟
اور پھر اس ميں بھى اختلاف ہے كہ آيا اس سے تين طلاق واقع ہونگى يا كہ ايك طلاق ؟
اور معلق كردہ طلاق ميں اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا يہ طلاق ہو گى يا كہ قسم شمار كي جائيگى ؟
اس كے بدلے كہ آپ اپنے آپ اور خاوند كو ان اختلافات ميں ڈاليں اور معاملہ مشكوك رہے، آپ كو چاہيے كہ آپ درج ذيل راستہ اختيار كريں:
ـ اگر آپ كا خاوند اپنى اصلاح كرنا چاہتا ہے يا پھر وہ معصيت آپ سے تعلق نہيں ركھتى اور نہ ہى اس معصيت كا آپ كو ضرر و نقصان پہنچتا ہے اور نہ ہى آپ كى اولاد كو، اور آپ طلاق كى صورت ميں بچوں كے ضائع ہونے كا خوف ركھتى ہوں تو پھر آپ كے ليے بہتر يہى ہے كہ صبر كرتے ہوئے خاوند كے ساتھ ہى رہيں.
خاص كر آپ كا خاوند توبہ كرتا ہے، اور جب اس ميں كمزورى آ جاتى ہے تو وہ دوبارہ اس معصيت كا مرتكب ٹھرتا ہے اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس ميں خير پائى جاتى ہے اور وہ صحيح راستہ اختيار كرنا چاہتا ہے.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر (47335 ) اور (10841 ) اور (110141 ) اور (130335 ) اور (96194 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كثرت كے ساتھ دعاء اور استغفار كرتى رہيں، كيونكہ دل تو اللہ سبحانہ و تعالى كى انگليوں كى درميان ہيں وہ جس طرح چاہتا ہے انہيں پھير ديتا ہے اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ايسے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جن سے وہ راضى ہوتا ہے، اور جنہيں پسند فرماتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات