عام طور پر میں اپنے لنگوٹیے دوستوں کو ایسے ناموں اور القاب سے پکارتا ہوں کہ اگر کوئی باہر کا آدمی سنے تو وہ یہ سمجھے گا کہ ہم دوست نہیں دشمن ہیں، ان القاب میں "اوئے گدھے" اور "اوئے پاگل" جیسے الفاظ بھی شامل ہوتے ہیں، میرے تمام دوست اسے معمول کی چیز سمجھتے ہیں ہم میں سے کوئی بھی ان پر ناراض نہیں ہوتا، چنانچہ وہ بھی مجھے یہی کچھ کہتے ہیں تو میں بھی ناراض نہیں ہوتا، اور جس وقت ہم یہ الفاظ استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو ہم واقعی کسی کو گدھا یا پاگل نہیں سمجھ رہے ہوتے، بس یہ الفا ظ اب ہماری زبان پر چڑھ چکے ہیں، تو کیا ہمارے اس کام میں کوئی شرعی مخالفت ہے؟ آپ اس بارے میں ہمیں رہنمائی دیں۔
اپنے دوستوں کو برے القابات سے بلاتا ہے اور دوست بھی اس پر غصہ نہیں ہوتے
سوال: 148441
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مومن کو چاہیے کہ اپنی زبان سے اچھی باتیں کیا کرے، بری اور گندی باتوں سے اپنے آپ کو بچائے، سنن ترمذی: (1977) میں سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن شخص بہت زیادہ طعنے دینے والا، بہت زیادہ لعنت کرنے والا، گالیاں دینے والا اور بے حیائی کی باتیں کرنے والا نہیں ہوتا۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث میں مذکور "مومن نہیں" کا مطلب ہے کہ کامل مومن نہیں ہے۔
بہت زیادہ طعنے دینے والا: اس سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں کو ان کی عزت ، آبرو اور اخلاقیات کے متعلق طعنے دیتا ہے۔
گالیاں دینے والا: اس سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے۔
عربی لفظ: " الْبَذِيءِ ": اس کا ایک مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ: جس شخص میں کوئی حیا نہ ہو۔ اور دوسرا موقف یہ ہے کہ: جو شخص لوگوں کو اپنی زبان سے اذیت دے، تو ایسی صورت میں یہ حدیث کے عربی لفظ: " الْفَاحِشِ " کے ہم معنی ہے۔" دیکھیں: تحفۃ الاحوذی
اگر کوئی شخص ان برے القاب سے غصہ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ الفاظ برے نہیں ہیں، مومن کو ہر قسم کے برے الفاظ اور بے حیائی سے دور رہنا چاہیے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب