ميں خليجى ممالك ميں ملازمت كرتا ہوں اور ميرى بيوى ايك ايشائى ملك ميں رہتى ہے، مجھے شك تھا كہ ہو سكتا ہے ميرى بيوى ميرى غير موجودگى ميں كسى دوسرے سے تعلقات ركھتى ہو، اس ليے ميں نے اجنبى بن كر اور نام تبديل كر كے بيوى كو ٹيلى فون كيا اور اس سے بات چيت كى وہ يہى سمجھتى رہى كہ ميں كوئى اور شخص ہوں.
ميں نے اس سے بات چيت كرتے ہوئے يہى معلوم كيا كيونكہ كچھ مخصوص امور ميں بات چيت بھى كى تھى حتى كہ ميں نے كوشش كى كہ وہ كچھ گناہ كا بھى ارتكاب كرے، بالآخر بات چيت كا نتيجہ يہى نكلا كہ وہ برى ہے، اور اللہ كا خوف ركھنى والى عورت ہے.
اس سے ميرے دل كو سكون ہوا، ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ آيا ميں نے اس سے نام بدل كر جو بات چيت كى ہے كہيں وہ گناہ كا باعث تو نہيں ہے ؟
ـ كيونكہ ميں نے اس كے اعتقاد بنا ديا تھا كہ جس سے وہ بات چيت كر رہى ہے وہ اس كا خاوند نہيں بلكہ ايك اجنبى شخص ہے، تو كيا اس طرح ميں نے اسے مخصوص امور ميں بات چيت كرنے پر ابھارنے ميں گناہ كا ارتكاب تو نہيں كيا، حالانكہ كوئى اور شخص نہيں تھا ؟
ـ كيا ميرا اپنے آپ كو كوئى اور شخص ظاہر كرنے كے بارہ ميں روز قيامت سوال تو نہيں ہوگا ؟
برائے مہربانى آپ مندرجہ بالا سوالات كا جواب ضرور ديں، كيونكہ مجھے اندر ہى اندر اللہ كا خوف كھائے جا رہا ہے، اور ميں گناہ كا احساس كر رہا ہوں ؟
بيوى كے متعلق شك ہوا تو بيوى كو آزمانے كے ليے اجنبى بن كر ٹيلى فون پر بات چيت كى
سوال: 149085
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مسلمان كے بارہ ميں حسن ظن كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اگر كوئى و شك و شبہ نہ پايا جاتا ہو تو مسلمان كو سلامتى و برى پر ہى محمول كيا جائے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو بہت بدگمانيوں سے بچو يقين جانو كہ بعض بدگمانياں گناہ ہيں، اور بھيد نہ ٹٹولا كرو الحجرات ( 12 ).
قرآن مجيد كا يہ ادب راحت و سعادت اور اطمنان كے اسباب ميں سے ہے، كيونكہ بدگمانى اور سوء ظن كے نتيجہ ميں تفتيش و تلاش كى جاتى ہے، اور بعض اوقات جاسوسى تك بھى معاملہ جا پہنچتا ہے، يا پھر ايسے عمل كى طرف جو آپ كر چكے ہيں.
حالانكہ ايسا كرنا غلط ہے، كيونكہ ايسا كرنے سے بيوى ميں جرات پيدا ہو گى كہ وہ مخصوص امور ميں دوسرے لوگوں سے بات چيت كرے، جيسا كہ آپ بيان كر چكے ہيں.
رہا مسئلہ نام تبديل كر كے بيوى كے ساتھ بات چيت كرنا تو بذاتہ يہ گناہ نہيں، بلكہ ايسا كرنے اور اس كے نتيجہ ميں جو كچھ مرتب ہوگا اس كے متعلق ديكھا جائيگا كہ اگر تو بغير كسى دليل اور قرائن كے اس نے سوء ظن اور بدگمانى كى بنا پر ايسا كيا ہے تو اس ميں اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كى مخالفت ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے سوء ظن ركھنے سے منع فرمايا ہے.
اور پھر بيوى كو كسى گناہ كے كام ميں ڈالنے كى كوشش كرنا بھى غلط ہے، چاہے بيوى كو آزمانے كے ليے ہى ايسا كيا جائے، فرض كريں اگر بيوى اس كى بات مانتى ہوئى گناہ كر بيٹھتى ہے تو يہ اس بات كى دليل نہيں ہو گى كہ وہ غلط كارى كرتى رہى ہے، اور اس نے اس سے قبل بھى اس گناہ كا ارتكاب كيا ہے، كيونكہ جب نفس كو بہلايا پھسلايا جائے اور اس كے سامنے گناہ كو مزين كر كے پيش كيا جائے تو وہ كمزور ہو جاتا ہے.
اس سے يہ واضح ہوا كہ ايسا طريقہ اختيار كرنا فائدہ مند نہيں ہے، بلكہ الٹا نقصاندہ ہو سكتا ہے، بيوى كو معصيت و نافرمانى پر ابھار رہا ہے، اور شك كرنے والا حقيقت حال سے واقف ہوئے بغير ہى اپنے شك ميں اضافہ كرتا رہا ہے.
اس سے زيادہ بہتر يہ ہے كہ آپ بيوى سے رابطہ ركھ كر اور اس كے پاس جا كر اس كى خيال ركھيں، اور اسے نيكى و عمل صالح كى دعوت ديں، اور ايسا عمل بتائيں جو اس كے ايمان كى زيادتى اور تقويت كا باعث ہو.
اور آپ بيوى كو اپنے گھر والوں كے قريب رہائش بنا كر ديں، يا پھر ايسى جگہ ركھيں جہاں نيك و صالح پڑوسى ہوں كيونكہ يہ چيز استقامت كا باعث ہے، اور شر و برائى سے دور رہنے ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہے.
پھر اس سب كچھ سے بھى اہم يہ ہے كہ مال و دولت كے حصول كى كوشش ميں آپ بيوى سے زيادہ عرصہ دور مت رہيں، بلكہ حسب استطاعت اپنے سفر كے عرصہ ميں كمى پيدا كريں، چاہے اس كے ليے آپ كو مال زيادہ بھى خرچ كرنا پڑے، يا پھر كمائى ميں كمى كريں، اور اپنى بيوى كا زيادہ خيال ركھيں، اس كى عفت و عصمت كا خيال ركھيں، اور اس كے حقوق كى ادائيگى كريں، يہ سب سے زيادہ واجب ہے.
مزيد آپ سوال نمبر (13318 ) اور (145815 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات