ميرے ليے ايك محترم خاندان سے تعلق ركھنے والے با اخلاق اور ديندار شخص كا رشتہ آيا اور ميں نے يہ رشتہ اس كى جانب سے پيش كردہ شروط كے مطابق رشتہ قبول كر ليا، شرط يہ تھى كہ ميں اس كے والدين كے ساتھ رہوں گى اور ملازمت نہيں كرونگى.
ليكن مشكل يہ درپيش ہے كہ اسے ابھى تك كوئى ملازمت اور كام نہيں مل سكا، كيا ہمارے ليے اس ميں كوئى حرج تو نہيں كہ ميرا سسر اپنے بيٹے كو ملازمت حاصل ہونے تك اخراجات ادا كرے، يا كہ ہم ملازمت كے حصول تك شادى مؤخر كر ديں ؟
مالدار باپ كو اپنے فقير اور تنگ دست بہو بيٹے پر خرچ كرنا چاہيے
سوال: 149438
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ پر كوئى حرج نہيں كہ شادى كے بعد آپ كا سسر آپ دونوں كے اخراجات برداشت كرے، جب آپ كا سسر مالدار اور غنى ہے اور اپنے تنگ دست بيٹے كے اخراجات برداشت كر سكتا ہے تو اسے بيٹے پر خرچ كرنا چاہيے، كيونكہ باپ كے ذمہ واجب نفقہ ميں شامل ہوگا حتى كہ بيٹے كو مل جائے، اور اس كى آمدنى كى كوئى صورت نكل آئے.
اور بيٹے كو بھى چاہيے كہ وہ ملازمت و كام كے حصول كى حقيقى كوشش كرے؛ تا كہ وہ اور اس كى بيوى اپنے والد پر بوجھ نہ بن جائے.
مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” آدمى پر واجب ہے كہ اس كے ذمہ جس كا نفقہ واجب ہے يعنى آباء و اجداد اور بيٹے اور پوتے وغيرہ جن كا اس پر نفقہ واجب ہے وہ اسے عفت و عصمت اختيار كرنے ميں معاون بنے، صحيح مسلك يہى ہے ” انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 9 / 404 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ہر وہ شخص جس كا كسى شخص پر دوسرے كو عفيف ركھنا لازم ہے، اس كى بيوى كا نان و نفقہ بھى اس پر لازم ہوگا؛ كيونكہ اس كے بغير اس كى عفت و عصمت كو محفوظ ركھنا ممكن ہى نہيں.
امام احمد رحمہ اللہ سے مروى ہے كہ باپ پر اپنى بہو كا نان و نفقہ لازم نہيں؛ يہ اس پر محمول ہے كہ اگر بيٹے كے پاس نان و نفقہ ہو تو پھر باپ پر لازم نہيں ہوگا ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 173 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر نوجوان كے پاس اپنى شادى كرنے كے ليے مطلوبہ مال ہو كہ وہ اتنى رقم اور مال سے شادى كر سكتا ہے تو اسے شادى كرنى چاہيے، اور اگر اس كے پاس مال نہ ہو اور اس كا والد اس كى شادى كرنے پر قادر ہو تو والد كو اس كى شادى كرنا ہوگى.
اسى طرح باپ كے ذمہ بيٹے كا نان و نفقہ اور كھانا پينا اور لباس اور رہائش بھى واجب ہوگى، اللہ تعالى نے جسے غنى اور مالدار كيا ہو اور اس كے بچے نكاح كى عمر كو پہنچ چكے ہوں اور وہ باپ سے شادى كرنے كا كہيں يعنى يا تو واضح الفاظ ميں شادى كا مطالبہ كريں، يا پھر ان كے اعمال اور افعال شادى كرنے پر دلالت كرتے ہوں تو باپ كے ليے انہيں شادى سے روكنا حلال نہيں.
بلكہ ان كى شادى واجب ہے، اگر وہ انكى شادى نہيں كرتا تو گنہگار ہوگا، اور اللہ تعالى اس كے مال و دولت ميں بركت نہيں فرمائيگا ” انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 9 / 492 ).
اور شيخ عبد الكريم الخضير حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” اولاد ميں سے محتاج اور ضرورتمند جس كا كوئى كام نہ ہو اور اس كا والد مالدار اور قدرت ركھتا ہو تو اسے محتاج بيٹے پر خرچ كرنا لازم كيا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ عبد الكريم الخضير ( 23 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب