0 / 0
2,99130/08/2012

كيا اولاد والدين اور ان كى ملازمہ كے اخراجات ادا كرنے كے پابند ہيں ؟

سوال: 150024

ميرى والدہ پانچ سو ريال ماہانہ دينے كا پابند كرتى ہے، ہم پانچ بہن بھائى ہيں، اور الحمد للہ صحت و عافيت سے ہيں، ليكن بعض اوقات ہميں ان پيسوں كى خود ضرورت ہوتى ہے، ليكن والدين كى رضا كے ليے اپنے بيوى بچوں كو چھوڑ كر انہيں دينا پڑتے ہيں.

ميرے والد صاحب بھى زندہ ہيں، ان كى جائداد بھى ہے اور كرائے بھى آتے ہيں اور انہيں ماہانہ ( 3500 ) ريال تنخواہ بھى ملتى ہے، اور اس كے علاوہ كئى كام كرتے ہيں.

ميرى والدہ كہتى ہے كہ ہمارے ليے ان كى ملازمہ اور گھريلو اخراجات اور والد صاحب كا خرچ دينا لازم ہے، سوال يہ ہے كہ كيا واقعى يہ سارے اخراجات ہم پر لازم ہيں ؟

يہ بتايا جائے اس ميں واجب كيا ہے، والد صاحب كہتے ہيں كہ اسے ہمارى تنخواہ كا ايك تہائى حصہ لينے كا حق حاصل ہے، اور وہ ہميں مجبور كرنے كے ليے معاملہ عدالت ميں لے جا سكتا ہے، برائے مہربانى جناب مولانا صاحب ہميں يہ بتايا جائے كہ ہمارے حقوق كيا ہيں، اور ہمارے ذمہ والدين كے حقوق كيا ہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اگر والد مالداراور غنى ہو، اور والدہ كو آپ كے والد كى جانب سے كافى خرچ ملتا ہو تو پھر اولاد كےليے اپنے والدين پر خرچ كرنا واجب نہيں، بلكہ اولاد كے ليے اپنے والدين پر اس صورتميں خرچ كرنا واجب ہوتا ہے جب ماں باپ فقير و تنگ دست ہوں، اور اولاد مالدار و غنىہو.

ابن منذر رحمہاللہ كہتے ہيں:

” اہل علماس پر متفق ہيں كہ وہ والدين جن كى كمائى كو كوئى ذريعہ نہ ہو اور وہ تنگ دست ہوںتو پھر اولاد كے مال ميں والدين كا خرچ واجب ہوگا ” انتہى

ديكھيں: المغنى (8/ 169 ).

اولاد پر والدينكى ملازمہ كى اجرت دينا واجب نہيں؛ ليكن اگر والدين خادمہ كے محتاج ہوں، اور ان كےپاس خادمہ كو تنخواہ دينے كے ليے مال نہ ہو تو بيٹا دےگا “

دوم:

باپ اپنے بيٹے كامال تين شروط كے ساتھ لے سكتا ہے:

پہلى شرط:

والد كو مال كىضرورت ہو.

دوسرى شرط:

بيٹے كو كوئىنقصان اور ضرر نہ حاصل ہو.

تيسرى شرط:

باپ ايك بيٹے سےلے كر كسى دوسرے بيٹے كو نہ دے.

اس كى دليل مسنداحمد اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:

عمرو بن شعيباپنے باپ اور دادا سے بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےپاس آيا اور عرض كرنے لگا:

اے اللہ تعالى كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا مال بھى اور ميرى اولاد بھى، اور ميرا باپ ميرا مالحاصل كرنا چاہتا ہے.

رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تم اورتيرا مال تيرے والد كا ہے، يقينا تمہارى اولاد تمہارى سب سے اچھے كمائى ہے، تو تماپنى اولاد كى كمائى سے كھاؤ “

مسند احمد حديثنمبر ( 6678 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3530 ) سنن ابن ماجہحديث نمبر ( 2292 ).

اس حديث كے كئىايك طرق اور شاہد پائے جاتے ہيں جن كى وجہ سے يہ صحيح بن جا تى ہے.

ديكھيں: فتحالبارى ( 5 / 211 ) نصب الرايۃ ( 3 / 337 ).

جابر بن عبد اللہرضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےپاس آ كر عرض كرنے لگا:

ميرا مال بھى ہے،اور ميرا بيٹا بھى، اور ميرا باپ ميرا سارا مال لينا چاہتا ہے.

تو رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تم اورتمہارا مال تمہارے والد كا ہے “

سنن ابن ماجہحديث نمبر ( 2291 ) صحيح ابن حبان ( 2 / 142 ) مسند احمد ( 6902 ) علامہ البانىرحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عائشہ رضى اللہتعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” يقيناتمہارى اولاد تمہارے ليے اللہ كى جانب سے ہبہ اور عطيہ ہے، وہ جسے چاہے لڑكياں ہبہكرے، اور جسے چاہے لڑكے ہبہ كرے، تو وہ اور ان كے مال جب تم ضرورتمند ہو تو تمہارےليے ہيں “

مستدرك الحاكم ( 2 / 284 ) سنن بيہقى ( 7 / 480 ) علامہ البانىرحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2564 ) ميں اسے صحيحكہا ہے.

مزيد تفصيل اورمعلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 194298 ) اور ( 9594 ) كے جوابات كامطالعہ ضرور كريں.

كيا والد كى طرحضرورت پڑنے پر ماں كو بھى مال لينے كا حق حاصل ہے ؟

اس ميں فقھاءكرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” باپ كےعلاوہ كسى اور كو بغير اجازت مال لينے كا حق حاصل نہيں؛ كيونكہ حديث ميں صرف باپكے بارہ ميں ہى كہا گيا ہے كہ:

” تم اورتمہارا مال تمہارے باپ كا ہے ”

اس ليے يہاں باپكے علاوہ كسى اور كو باپ پر قياس كرنا صحيح نہيں؛ اور اس ليے بھى كہ بچپن ميں باپكو بچے اور اس كے مال پر ولايت و پورى شفقت يقينى حق حاصل ہے، اس كا وارث ہونا كسىبھى صورت ميں ساقط نہيں ہوتا، اور ماں نہيں لےگى كيونكہ ماں كو بچے پر ولايت حاصلنہيں ہے ” انتہى

ديكھيں: المغنى (5/ 397 ) الانصاف ( 7 / 155 ) الغرارالبھيۃ ( 4 / 400 ).

اور كچھ فقھاءكرام نے ماں كو بھى باپ كى مانند قرار ديا ہے.

جابر بن عبد اللہرضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

” ماں اورباپ دونوں ہى اپنے بيٹے كا مال اجازت كے بغير لے سكتے ہيں، ليكن بيٹا اور بيٹى ماںباپ كا مال بغير اجازت نہيں لے سكتے “

المحلى ابن حزم (6/ 385 ) ابن حزم نے اسے صحيح كہا ہے.

اور عطاء بن ابىرباح اور امام زہرى رحمہ اللہ كا قول بھى ايسا ہى ہے.

ديكھيں:المدونۃ ( 2 / 264 ).

اس سے يہ واضحہوا كہ جب ماں يا باپ كو بيٹے كے مال ميں سے كسى چيز كى ضرورت ہو تو ماں باپ كےليے وہ چيز لينى جائز ہے، ليكن اس ميں سابقہ شروط كا خيال كرنا ہوگا.

اور پھر اولاد كوبھى چاہيے كہ وہ والدين كے عظيم حق اور صلہ رحمى كا خيال ركھيں اور ان سے حسن سلوكاور صلہ رحمى كرتے ہوئے انہيں كوئى چيز دينے سے بخل مت كريں بلكہ حتى الوسع انہيںدے كر راضى ركھنے كى كوشش كريں كيونكہ انہيں اس كے بدلے ميں اجر عظيم حاصل ہوگا،اور دنيا و آخرت ميں رفعت و بلندى اور مقام ملےگا، كيونكہ اولاد كے ليے سب سےزيادہ صلہ رحمى اور عزت و تكريم كا حق والدين كو حاصل ہے، جو مال اور اخراجاتوالدين كے ضرورت پر خرچ ہوگا اس ميں خير و بركت اور مال كى زيادتى ہى ہوگى.

ہمارى دعا ہے كہاللہ سبحانہ و تعالى آپ كى نيكى و حسن سلوك اور صلہ رحمى ميں معاونت فرمائے، اورآپ كے مال و اولاد ميں بركت عطا كرے.

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android