اگر کوئی مومن شخص قرآن سنے لیکن قرآن اسے سمجھ میں نہ آتا ہو ، لیکن اسے اتنا علم ہو کہ وہ قرآن سن رہا ہے، تو کیا اسے ثواب ملتا ہے؟ یا پھر ثواب اسی کو ملتا ہے جو سنے بھی اور سمجھے بھی؟ مجھے امید ہے کہ آپ قرآن کریم یا صحیح حدیث سے دلیل پیش کریں گے۔
کیا سمجھے بغیر قرآن سننے والے کو ثواب ملتا ہے؟
سوال: 150633
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالی نے قرآن کریم کوتوجہ اور خاموشی کے ساتھ سننے کا عمومی حکم دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَاور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش ہو جاؤ، تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ [الأعراف: 204]
شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو بھی قرآن مجید کی تلاوت سنے اس کیلیے یہ حکم عام ہے، یعنی اسے غور سے سننے اور خاموش ہو جانے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں پھر عربی الفاظ: " فَاسْتَمِعُوا " اور " وَأَنْصِتُوا" میں فرق یہ ہے کہ: انصات کا مطلب یہ ہے کہ: ظاہری طور پر گفتگو بند کر دیں اور کوئی بھی ایسا کام مت کریں جس سے سننے میں رکاوٹ پیدا ہو۔
جبکہ استماع کا مطلب یہ ہے کہ کان دھر کر غور سے سنیں، اپنے دل کو حاضر کریں اور جو بھی آیات سن رہا ہے ان پر غور و فکر کرے، تو جو شخص بھی ان دونوں کاموں کو قرآن کریم کی تلاوت کے دوران سر انجام دے تو یقیناً اسے بہت زیادہ بھلائی ملے گی اور وافر علم بھی حاصل ہو گا، نیز تسلسل کے ساتھ ایمان میں بھی اضافہ ہو گا، اس کو ملنے والی ہدایات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اسے دینی بصیرت حاصل ہو گی؛ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان دونوں کاموں کو سر انجام دینے پر حصول رحمت کا بھی عندیہ دیا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص کو قرآن کی آیات سنائی جائیں اور وہ آیات کی تلاوت پر کان نہ دھرے اور نہ ہی خاموش ہو تو وہ حصولِ رحمت اور ڈھیروں بھلائی سے محروم ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت سننے والوں میں سے سماعت تلاوت کا تاکیدی حکم نمازیوں کو جہری نمازوں کے دوران بھی دیا گیا ہے کہ جب امام قراءت کرے تو مقتدی کو خاموشی سے سننے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ کچھ اہل علم نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ: مقتدی کا خاموشی سے تلاوت سننا سورت فاتحہ اور دیگر قراءت کرنے سے بھی اولی ہے" ختم شد
"تفسير السعدی" (314)
قرآن کو توجہ سے سننے اور خاموش رہنے میں سب سے بڑی حکمت جو کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ سامع معانی پر مطلع ہو کر عمل کی راہ اختیار کرے، امام طبری کہتے ہیں :
"قرآن پر ایمان لانے والوں ،اس کی کتاب کی تصدیق کرنے والوں کہ جن کے لئے یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے ان سے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ : " إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ" یعنی اے مومنو! جب قرآن تم پر تلاوت کیا جائے تو " وَأَنْصِتُوا" غور سے اس کو سنو یعنی اپنے کانوں کو اس کی طرف لگا دو تاکہ اس کی آیات کو سمجھو اور اس کی مواعظ سے عبرت پکڑو اور فرمایا خاموش ہو جاؤ " لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ" تاکہ تم عقل اور تدبر سے کام لے سکو اور اس طرح شور و غل مت کرو کہ تم سمجھ ہی نہ سکو؛ یہ سب اس لئے کہ تم پر اس سے نصیحت پکڑنے، عبرت حاصل کرنے اور آیات میں بیان کردہ فرائض کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی وجہ سے اللہ کی طرف سے تم پر رحم کیا جائے "۔ ختم شد
تفسير الطبري (13/244)
لہذا اگر کوئی شخص تلاوت قرآن کے دوران خاموشی کے ساتھ کان دھر کر تلاوت سنے ، قرآنی آیات کے معانی پر غور و فکر کرے اور انہیں سمجھے تو اس سے دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سماع کے ذریعے اللہ تعالی نے بندوں کو ہدایت دی، ان کے معاشی اور اخروی امور کو سنوار دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہی حکم دے کر بھیجا گیا، مہاجرین اور انصار کو اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو یہی حکم دیا گیا۔ اس سماع کیلیے سلف صالحین جمع ہوتے تھے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام جب اکٹھے ہوتے تو ان میں سے کسی ایک کو کہتے کہ قرآن کی تلاوت کرو، اور بقیہ خاموشی سے کان لگا کر قرآن سنتے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو کہا کرتے تھے: "ہمیں ہمارے پروردگار کی یاد دلاؤ" تو اس پر ابو موسی قرآن کی تلاوت کرے اور بقیہ تمام غور سے سنتے تھے " ختم شد
" مجموع الفتاوى " (11/626)
دوم:
سماع کامل جب یہ ہے کہ جس میں فہم اور تدبر دونوں چیزیں ہوں، تو یہ بات بھی یقینی ہے کہ جس شخص میں جس قدر طاقت تھی اور وہ اپنی استطاعت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت سنتا ہے تو وہ حسب عمل قابل ستائش ہے، اور جس مقدار کو سر انجام دینے سے قاصر رہا اس میں اس کا عذر مقبول ہے۔
اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اگر تھوڑا کام کرنا جانتا ہو تو سارا ہی نہ کرے، بلکہ جس قدر کر سکتا ہے اتنا کرے بقیہ میں اس کا عذر قبول ہو گا، کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ ناممکن عمل کی وجہ سے ممکن عمل ساقط نہیں ہوتا، یعنی بندہ کوئی بھی واجب یا مستحب کام جس قدر کر سکتا ہے وہ غیر مستطاع عمل کی وجہ سے ساقط نہیں ہو گا ؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ حسب استطاعت اللہ سے ڈرو۔ [التغابن: 16]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر کوئی انسان بنا سمجھے قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو کیا اسے ثواب بھی ملے گا؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ:
"قرآن کریم بابرکت کتاب ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِجو کتاب آپ کی جانب نازل کی ہے بابرکت ہے، تا کہ وہ اس کی آیات پر تدبر کریں اور اہل دانش ان سے نصیحت حاصل کریں۔ [ص: 29] تو اس لیے انسان کو قرآن پڑھنے پر ثواب ملے گا، چاہے وہ معنی سمجھے یا نہ سمجھے، تاہم کسی بھی مکلف مسلمان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ قرآن کریم کو سمجھے بغیر ہی پڑھتا جائے؛ کیونکہ اگر کوئی انسان مثال کے طور پر علم طب حاصل کرنا چاہتا ہے، اور اس نے طب کی کتاب بھی پڑھ لی، تو اس شخص کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہو گا جب تک وہ اس کا معنی نہ سمجھے، اور اسے اس کی تفصیل نہ سمجھائی جائے، بلکہ وہ خود پوری کوشش کرے گا کہ اس کتاب کو سمجھے تا کہ اسے اپنی پیشہ ورانہ عملی زندگی میں نافذ کر سکے۔
تو ایسے میں قرآن کریم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جو کہ سینوں کیلیے شفا اور لوگوں کیلیے وعظ ہے، تو کیا یہ عمل اچھا ہے کہ انسان اسے سمجھے بغیر پڑھے، اور اس پر تدبر نہ کرے؟! یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دس آیتوں سے بھی آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ان تمام آیات کا علم حاصل نہ کر لیتے ، اور ان پر عمل نہ کر لیتے، اس طرح انہوں نے قرآن کریم کا علم اور عمل دونوں یکساں حاصل کئے۔
تو انسان کو قرآن کریم کی تلاوت پر ثواب ملتا ہے، چاہے وہ معنی سمجھے یا نہ سمجھے، تاہم قرآن کریم کا معنی سمجھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، نیز قرآن کریم سمجھنے کیلیے علم اور دیانت داری رکھنے والے معتمد علمائے کرام سے رجوع کرے، اگر کوئی عالم دین قرآن کریم سمجھانے کیلیے میسر نہ ہو تو معتمد تفسیر کی کتابوں کو پڑھے، مثلاً: ابن جریر طبری، تفسیر ابن کثیر اور دیگر تفاسیر جن میں صحابہ اور تابعین سے منقول تفسیر ذکر کی گئی ہے" ختم شد
ماخوذ از: "فتاوى نور على الدرب" کیسٹ نمبر: (85) سائید: (الف)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب