ميں ميڈيكل كے شعبہ ميں ايمبولينس گاڑى ميں ملازمت كرتا ہوں، گاڑى كے حادثہ ميں بلايا گيا تو وہاں زخمى زمين پر گرا ہوا تھا جب ميں زخمى كے پاس گيا تو مجھے يقين نہيں كہ آيا اس كى نبض چل رہى تھى يا نہيں، ميں نے ايمبولينس ميں اس كى نبض نہ ہونے كا يقين كرنے كے بعد اس كے ضرورى امور سرانجام ديے اور جب ہاسپٹل پہنچا تو ايمرجنسى ميں لےگيا انہوں نے اس كى لاش مردہ خانہ ميں ركھ دى.
وہاں پر موجود ڈاكٹر حضرات ميں مجھے اس كى نبض كے بارہ ميں دريافت كيا تو ميں نے غير شعورى طور نفى ميں جواب ديا اور مجھے يقين نہيں تھا كہ اس كى نبض تھى يا نہيں ہاسپٹل سے جائے حادثہ آدھ گھنٹہ كے فاصلہ پر تھا ميں نے جب جائے حادثہ سے اس زخمى كو اٹھايا تو روزے كى حالت ميں تھكا ہوا تھا، اور ہاسپٹل پہنچ كر يہ كلمہ كہا تو انہوں نے سارے آلات ہٹا كر اس كى وفات كا اعلان كر ديا.
اب مجھے ضمير كى خلش رہتى ہے ہو سكتا ہے ميں اثبات ميں جواب ديتا تو وہ مصنوعى سانس كا اہتمام كرتے تو اللہ كے بعد يہ چيز اس كى زندگى كا سبب بن جاتا، ميں پريشان رہتا ہوں حالانكہ اس حادثہ كو دو برس ہو چكے ہيں كيا ميرے ذمہ كوئى كفارہ ہے، يا اس كے نتيجہ ميں مجھ پر كيا لازم آتا ہے، اور ميں اس سے چھٹكارا كيسے حاصل كر سكتا ہوں، ميں جب بھى كوئى زخمى اٹھاتا ہوں تو مجھے يہ حادثہ پريشان كر ديتا ہے برائے مہربانى جتنى جلدى ہو سكتے جواب ديں.
گاڑى كے حادثہ ميں زخمى كا ذمہ دار كون ؟
سوال: 150940
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ كى حالت كے بارہ ميں ہم نے ڈاكٹر حضرات سے دريافت كيا تو ہميں يہ پتہ چلا كہ فنى اعتبار سے آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، كيونكہ ايمبولينس والے كا كام صرف جائے حادثہ پر زخمى كو ضرورى علاج فراہم كر كے ہاسپٹل ميں ايمرجنسى ڈاكٹر كے سپرد كرنا ہوتا ہے.
اور ايمرجنسى روم ميں ڈيوٹى پر موجود ڈاكٹر حضرات كى ذمہ دارى ہے كہ وہ زخمى پہنچتے ہى اس كا چيك اپ كر كے اس كا علاج كريں.
خطرناك حالت والے مريض كے سلسلہ ميں وہاں ڈاكٹر كوئى حق نہيں كہ ايمبولينس والے كى بات كو بنياد بنا كر علاج شروع كرے، وہاں موجود ڈاكٹر كو ايمبولينس والے كى گواہى كے قطع نظر حسب استطاعت زخميوں كو علاج فراہم كرنا چاہيے، كيونكہ ايمبولينس والے كى معلومات ناقص اور غلط بھى ہو سكتى ہيں.
مريض سے اس كى زندگى بچانے كے آلات ايمبولينس والے كى گواہى پر نہيں ہٹائے جاتے بلكہ سپيسلسٹ ڈاكٹر كے كہنے اور لازمى وقت پورا ہو جانے كے بعد ہى آلات ہٹائے جاتے ہيں.
مريض كے ہاسپٹل پہنچنے تك اس كى دو حالتيں ہو سكتى ہيں، يا تو زخمى فوت ہو چكا تھا يا پھر زندہ تھا، اگر وہ ہاسپٹل زندہ پہنچا ہو تو پھر اس سے زندگى بچانے كے آلات تين سپيسلسٹ ڈاكٹروں كى رپورٹ كے بعد ہى ہٹائے جائيں گے، اور اگر مريض وہاں فوت شدہ حالت ميں پہنچے تو پھر اصل ميں اس كے ليے زندگى بچانے كے آلات كى ضرورت ہى نہيں، ان دونوں حالتوں كا تفصيلى بيان سوال نمبر (115104 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اس سے يہ واضح ہوا كہ ذمہ دارى ڈاكٹر كى ہے نہ كہ ايمبولينس والے كى.
لہذا يہ ظاہر نہيں ہوتا كہ زخمى كو جو ہوا اس كے نتيجہ ميں آپ پر كچھ لازم ہوتا ہو، اس ليے پريشان ہونے كى كوئى ضرورت نہيں اور نہ ہى غم كريں، اگر وہ فوت شدہ شخص مسلمان تھا تو اللہ تعالى اس پر اپنى رحمت فرمائے.
دوم:
آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ روزے كى حالت ميں تھے اور روزے كى وجہ سے تھكے ہوئے تھے، اس ليے آپ كو علم ہونا چاہيے كہ اگر روزہ آپ كے كام ميں كمى و كوتاہى كا باعث بنتا ہو جس كى بنا پر زخميوں كى زندگى كو خطرہ ہو جائے تو آپ كے ليے روزہ افطار كرنا ضرورى ہے، يہ تو اس حالت ميں ہے اگر روزہ فرضى ہو، ليكن اگر نفلى روزہ ہو تو معاملہ اس سے بھى واضح ہے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
” جس كسى نے بھى جسے بچانا واجب ہے كو غرق ہونے يا جلنے سے بچانے كے ليے روزہ افطار كر ليا تو وہ اس روزے كى قضاء كريگا، مثلا آگ نے ديكھا كہ كسى گھر كو آگ لگى ہوئى ہے اور اس ميں افراد خانہ بھى ہيں، اور آپ انہيں اسى صورت ميں بچا سكتے ہيں كہ روزہ چھوڑ ديں اور آپ نے ان لوگوں كو بچانے ميں طاقت حاصل كرنے كے ليے پانى پى ليا تو آپ كے ليے ايسا كرنا جائز بلكہ اس حالت ميں روزہ چھوڑنا اور افطار كرنا واجب ہوگا تا كہ انہيں بچايا جا سكے.
اسى طرح وہ لوگ جو فائربرگيڈ ميں ملازمت كرتے ہيں جب دن كے وقت كہيں آگ لگ جائے اور وہ اس ميں موجود افراد كو بچانے اور اسے بجھانے جائيں ليكن ان كے روزہ افطار كيے بغير ايسا كرنا ممكن نہ ہو تو وہ اپنے جسم كى طاقت كے ليے كچھ كھا پى ليں تو يہ جائز ہے تا كہ قوت كے ساتھ آگ بجھائى جا سكے ” انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ عثيمين ( 19 / 163 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب