ميرى والدہ كى عمر اكياون برس ہے اور ورم ہونے كى بنا پر انہيں سارا ماہ ہى خون آتا رہتا ہے، كيا وہ اس حالت ميں نماز روزہ كى پابندى كريں گى ؟
ورم كى بنا پر سارا ماہ خون آتا ہے رمضان كے روزے كيسے ركھے ؟
سوال: 153109
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عورت كى سن اياس يعنى كس عمر ميں عورت كو ماہوارى آنے كى اميد ختم ہو جاتى ہے علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء پچاس برس كہتے ہيں اور بعض نے ساٹھ برس كہا ہے، ليكن صحيح يہ ہے كہ اس كى كوئى حد نہيں بلكہ عورتوں ميں يہ مختلف عمر ميں ہوتا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس سلسلہ ميں عورتيں مختلف ہيں: بعض عورتيں جلد نااميد ہو جاتى ہيں، اور بعض كو ساٹھ يا ستر برس كى عمر سے بھى زائد عمر تك حيض آتا رہتا ہے، اس ليے جب عورت كو ماہوارى آئے تو وہ حائضہ شمار ہوگى چاہے جس حالت اور عمر ميں ہو.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ عورتيں جوحيض سے نا اميد ہو چكى ہوں .
يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے كسى معين عمر كى تحديد نہيں فرمائى، اس ليے عورتوں ميں مختلف ہوتى ہے.
خلاصہ يہ ہے كہ حيض كا خون گندگى ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے بيان كيا ہے، اس ليےجب بھى حيض كا خون آئے تو عورت پر جو لازم ہے اس كى ادائيگى واجب ہوگى ” انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ابن عثيمين ( 12 / 123 ).
اس ليے جب آپ كى والدہ عمر كى اس حد تك پہنچ چكى ہوں جس ميں حيض منقطع ہو جاتا ہے اور پھر انہيں يہ بيمارى لاحق ہوئى ہو تو يہ حيض كا خون نہيں ہوگا، اس ليے وہ لنگوٹ وغيرہ باندھے اور خون دھو كر ہر نماز كے ليے وضوء كركے نماز ادا كرے.
اور اگر يہ بيمارى اسے نا اميدى كى عمر كو پہنچنے سے قبل لگى ہو تو اسے اپنى ماہوارى كے ايام شمار كر كے ان ايام ميں نماز روزہ چھوڑنا ہوگا، اور جب عادت كے مطابق دن ختم ہو جائيں تو وہ غسل كر كے نماز روزہ كى پابندى كريگى چاہے خون آتا بھى رہے، كيونكہ يہ حيض كا خون نہيں ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
” مسلسل خون آنا اور مستقل رہنا ايك بيمارى ہے جب وہ نماز ادا كرنا چاہے تو استنجاء كركے وضوء كرے اور لنگوٹ باندھ لے تا كہ خون باہر نہ آئے اور لباس خراب نہ كرے، اور نماز ادا كر لے، اسے ہر نماز كے وقت ايسا كرنا ہوگا.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ والى عورت كو فرمايا تھا:
” تم ہر نماز كے ليے وضوء كرو ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃالدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 4 / 259 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك چھپن برس كى عورت كى پچاس برس كى عمر سے ماہوارى بدنظمى كا شكار ہے، اب اسے مہينہ ميں دو يا تين بار خون آنے لگا ہے، اور بعض اوقات نو دن تك آتا رہتا ہے، اور يہ خون حيض كے خون كى صفات جيسا ہے، اور وہ ايك بار آ كر دوسرى بار آنے كےدرميان طہر يعنى پاكى نہيں ديكھتى جب بھى خون آتا وہ نماز روزہ چھوڑ ديتى، ليكن پھر علم ہوا كہ اس كے رحم ميں ورم ہے.
اور ڈاكٹر نے بتايا كہ يہى ورم خون آنے كا سبب ہے، يہ بتائيں كہ اس عورت كى نماز روزہ اور جماع كے متعلق كيا حالت ہو گى، اور جو برس بيت گئے ہيں ان كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” جب ڈاكٹر حضرات يہ فيصلہ كريں كہ آنے والا خون زخم كا تھا تو يہ عورت پاك ہے وہ نماز روزہ كى پابندى كريگى، اور اگر واضح نہ ہو تو اس عورت كا حكم استحاضہ والى عورت كا ہوگا، وہ اپنى ماہوارى كى عادت كے ايام ہر ماہ نماز روزہ چھوڑے گى اور پھر غسل كر كے نماز روزہ كى ادائيگى كريگى اور خاوند ہم بسترى بھى كر سكتا ہے چاہے اسے خون آتا بھى رہے.
رہے بيتے ہوئے برس تو اس كے بارہ ميں اس عورت پر كچھ نہيں ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ والى عورتوں كو نماز لوٹانے كا حكم نہيں ديا تھا ” انتہى
ديكھيں: ثمرات التدوين ( 25 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب