ٹریفک حادثے میں کٹ پھٹ جانے والی میت کو جنازے کیلئے کیسے غسل دیا جائے گا؟
کٹی پھٹی میت کی نعش کو غسل کیسے دیا جائے؟
سوال: 154635
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جو شخص ٹریفک حادثے میں فوت ہو جائے، اور اسکے اعضاء کٹ کر بکھر جائیں ، تو اگر اس کے تمام اعضاء جمع کر کے غسل دینا ممکن ہو تو اسکے اعضاء جمع کر کے غسل دیا جائے گا؛ کیونکہ میت کو غسل دینا واجب ہے، اور اگر مکمل جسم کو غسل دینا ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہو سکے اسے غسل دیا جائے گا، اور باقی اعضا کیلئے تیمم کروایا جائے گا۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے [شافعی] فقہاء کہتے ہیں: اگر پانی کی عدم دستیابی، یا آگ میں جلنے کی وجہ سے غسل دینا ممکن نہ ہو کہ اگر غسل دیا گیا تو اعضاء بکھر جائیں گے، تو ایسی صورت میں غسل نہیں دیا جائے گا، بلکہ تیمم کروایا جائے گا، اور یہ تیمم کروانا واجب ہوگا؛ کیونکہ یہ ایسی طہارت ہے جو نجاست زائل کرنے سے تعلق نہیں رکھتی، چنانچہ پانی استعمال کرنے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے تیمم کی جانب منتقل ہونگے، جیسے غسل جنابت میں ہوتا ہے، ۔۔۔ ابن منذر نے ایسی میت کے بارے میں جس کا جسم پانی استعمال کرنے سے بکھر سکتا ہو، اور میت کو غسل دینے کی کوئی صورت نہ ہو، ایسی میت کے بارے میں ثوری اور مالک سے نقل کیا ہے کہ: اس پر پانی بہا دیا جائے گا، جبکہ احمد اور اسحاق کے ہاں تیمم کروایا جائے گا، یہ نقل کرنے کے بعد انہوں نے کہا: میں بھی اسی کا قائل ہوں" انتہی
"شرح المهذب"(5/140)اختصار کیساتھ
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"دیوار کے نیچے آ کر ، آگ میں جل کر، یا پانی میں ڈوب کر مرنے والے کو غسل دینا ممکن ہو تو اسے غسل دیا جائے گا۔۔۔ اور اگر پانی سے اسکے اعضاء ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو غسل نہیں دیا جائے گا، بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے تیمم کروایا جائے گا، [میت کی حالت بالکل اسی] زندہ کی طرح ہے جسے پانی لگنے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کروایا جائے گا، اور اگر کچھ اعضاء کو دھونا ممکن ہو، تو قدر الامکان غسل دیا جائے گا، اور باقی اعضاء کیلئے زندہ شخص کی طرح تیمم کروایا جائے گا" انتہی
"المغنی" (2/210)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایسے شخص کو غسل کس طرح دیا جائے گا جو کسی حادثے میں فوت ہو جائے، اور جسم کی حالت بگڑ جائے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکے اعضاء کٹ پھٹ جائیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر ممکن ہو تو اسے غسل دینا واجب ہے، جیسے دیگر میتوں کو غسل دینا واجب ہوتا ہے، اور اگر ممکن نہیں ہے تو اسے تیمم کروایا جائے گا؛ کیونکہ جب پانی سے غسل دینا ممکن نہ ہو تو تیمم پانی سے غسل کے قائم مقام ہوتا ہے"
"مجموع الفتاوى"(13/123)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"مجھے چلتی نہر کے پانی میں ایک مردہ بچہ ملا، جس کے جسم پر کپڑے بھی نہیں تھے، اور یہ بچہ نو مولود تھا، اور اسکا گوشت ٹوٹ رہا تھا، میں اسے عام میت کی طرح شریعت کے مطابق غسل نہیں دے سکا، تو کیا مجھ پر گناہ بھی ہوگا کہ میں نے اسے بغیر غسل دئیے دفن کر دیا، اور اگر آئندہ کوئی ایسا واقعہ ہو تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر میت کو غسل دینا مشکل ہو تو اہل علم کہتے ہیں کہ اسے تیمم کروایا جائے گا، جیسے زندہ فرد تیمم کرتا ہے، یعنی: اسکے دونوں ہاتھوں کو مٹی پر مارا جائے گا، پھر اسکے چہرے اور ہاتھ کا مسح کرتے ہوئے تیمم مکمل کروایا جائے گا، پھر اسے کفن دے کر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور دفن کر دیا جائے گا" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (13/123)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب