جس وقت اللہ تعالی کسی بھی مسلم یا غیر مسلم شخص کو موت دے دے اور وہ اسلام دشمنی میں کھلم کھلا کردار ادا کرتے ہوں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی تحریروں، تقاریر، مباحثوں اور نظریات کے ذریعے ہمہ تن مصروف ہوں، ایسی باتیں کرتے ہوں جن سے اسلام کے مسلمہ اصول و ضوابط کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوں، تو ہمیشہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ حدیث میں ہے کہ (اپنے فوت شدگان کی صرف خوبیان کیا کرو) لیکن ان مرنے والوں کی زندگی اور کردار ایسا نہیں کہ ان میں سے کچھ بیان کیا جا سکے، میں نے اس حدیث کے بارے میں یہ بھی پڑھا ہے کہ یہ ضعیف حدیث ہے۔ تو میری آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلے میں صحیح شرعی حکم واضح کر دیں، اور یہ بھی بتلا دیں کہ کیا اس جیسے لوگوں کی موت پر خوش ہونا جائز ہے یا ناجائز؟ کیونکہ یہ لوگ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
دشمنان اسلام کی موت اور انہیں پہنچنے والی دنیاوی مصیبتوں پر خوش ہونا جائز ہے؟
سوال: 154727
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سائل نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ ضعیف ہے، صحیح ثابت نہیں ہے۔
اس روایت کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنے فوت شدگان کی خوبیاں ذکر کیا کرو، اور ان کی برائیوں سے زبان روک لو) اس حدیث کو ابو داود: (4900) اور ترمذی: (1019) نے روایت کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے، نیز امام ترمذی کہتے ہیں کہ: “یہ غریب حدیث ہے اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا کہ: اس حدیث کا راوی : عمران بن انس مکی منکر الحدیث ہے۔” نیز اس مسئلے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایک روایت منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فوت شدگان کو برا بھلا مت کہو؛ کیونکہ وہ اپنے کیے ہوئے اعمال تک پہنچ گئے ہیں۔) اس حدیث کو امام بخاری : (1329) نے روایت کیا ہے۔
دوم:
دشمنان اسلام، سنگین نوعیت کے بدعات کے مرتکب افراد، اور اعلانیہ گناہ کرنے والے لوگوں کی موت پر خوشی شرعی عمل ہے، یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں، حجر و شجر اور جانوروں پر نعمت ہے، بلکہ اہل سنت تو ایسے لوگوں کے بیماریوں میں مبتلا ہونے ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر بھی خوش ہوتے ہیں، اسی طرح ان پر مصیبتیں ٹوٹیں تب بھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
ہماری اس بات پر بہت سے دلائل موجود ہیں جن میں سے چند دلائل درج ذیل نصوص ، آثار، اور واقعات ہیں:
- اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ [الأحزاب: 9] اس آیت کریمہ میں اس چیز کا بیان ہے کہ اللہ کے دشمنوں کو ہلاک کرنا بھی اللہ تعالی کی مسلمانوں پر نعمتوں میں شامل ہے اور اس نعمت پر اللہ کا شکر اور ڈھیروں ذکر کرنا چاہیے۔ - سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : “لوگ ایک جنازے کو لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کے بارے میں اچھے کلمات کہے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی۔) پھر لوگ ایک اور جنازے کو لے کر گزرے تو اسے لوگوں نے برا بھلا کہا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی۔) اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: “کیا چیز واجب ہو گئی؟” تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اُس کے بارے میں تم نے اچھے کلمات کہے تو اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور اِس کو تم نے برا بھلا کہا تو اس کے لیے جہنم واجب ہو گئی، تم اس دھرتی پر اللہ تعالی کے گواہ ہو۔)” اس حدیث کو امام بخاری: (1301) اور مسلم: (949) نے روایت کیا ہے۔
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
“اگر یہ کہا جائے کہ فوت شدگان کے بارے میں برے کلمات کا استعمال کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؛ حالانکہ صحیح حدیث زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فوت شدگان کو برا بھلا نہیں کہنا بلکہ ان کا ذکر صرف اچھے الفاظ میں ہی کرنا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوت شدگان کو برے الفاظ سے یاد کرنے کی ممانعت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو منافق، کافر، اعلانیہ گناہ یا بدعت کرنے والے نہیں ہوتے؛ کیونکہ ان لوگوں کی برائیوں کو دوسروں کو بچانے کے لیے ذکر کرنا حرام نہیں ہے ، اس کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ لوگ ان کے راستے پر چلنے سے خبردار بھی رہیں گے۔” ختم شد
” عمدة القار شرح صحيح البخاری ” ( 8 / 195 )
- ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جنازے کو لے کر گزرا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس نے آرام پا لیا یا لوگوں نے اس سے آرام پا لیا) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: کس نے آرام پایا اور کس سے آرام پایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مومن شخص دنیا کے رنج و تکلیف سے آرام پا جاتا ہے اور بدکار شخص سے لوگ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں) اس حدیث کو امام بخاری: (6147) اور مسلم: (950) میں روایت کیا ہے، اور امام نسائی نے اس حدیث پر اپنی کتاب سنن نسائی : (1931) میں عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: “باب ہےکافروں سے راحت پانے کے بارے میں”
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
“حدیث کا معنی ہے کہ: فوت ہونے والے لوگوں کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو خود راحت پاتے ہیں، اور دوسری وہ قسم جن کے جانے سے لوگوں کو راحت ملتی ہے۔ فاجر آدمی سے لوگوں کے راحت پانے کا مطلب یہ ہے کہ: لوگ فاجروں کی اذیت رسانی سے محفوظ ہو جاتے ہیں، فاجروں کی اذیت رسانی کئی طرح سے ہوتی ہے، مثلاً: لوگوں پر ظلم کرنا، گناہوں کا ارتکاب کرنا، اگر لوگ انہیں گناہوں سے روکیں تو تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، یا ممکن ہے کہ انہیں روکنے کی بنا پر نقصان اٹھانا پڑے، اور اگر لوگ انہیں روکتے نہیں تو گناہ گار بنتے ہیں۔
جانور اس طرح سے راحت پاتے ہیں کہ ظالم لوگ انہیں مارتے ہیں، ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادتے ہیں، اور بسا اوقات انہیں بھوکا بھی رکھتے ہیں، جانوروں کو ایذا رسانی کے مزید طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔
دھرتی اور درختوں کو داودی رحمہ اللہ کے مطابق راحت اس طرح ملتی ہے کہ فاجروں کی موجودگی میں بارشیں نہیں برستیں، جبکہ مالکی فقیہ الباجی کہتے ہیں کہ: فاجر لوگ انہیں پانی لگنے سے رکاوٹ ڈالتے ہیں ، انہیں پانی نہیں لگاتے۔” ختم شد
” شرح مسلم ” ( 7 / 20 ، 21 )
- ایک خارجی شخص جس کا نام “المخدج” تھا، اس کے قتل ہونے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ کیا تھا، یہ خارجی آپ سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“امیر المومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف جہاد کیا، آپ نے خارجیوں سے قتال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کیں، پھر ان کے قتل ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا، نیز جب خارجیوں کے سر غنّے ذو الثدیہ کو مقتولین میں دیکھا تو اللہ تعالی کے لیے سجدہ شکر بھی کیا۔
لیکن جنگ جمل اور صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوشی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ آپ کو انتہائی تکلیف ہوئی اور جو کچھ بھی ہوا اس پر پشیمان بھی ہوئے، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بھی ذکر نہیں کی بلکہ یہاں تک کہا کہ میں نے اپنے اجتہاد سے ان کے خلاف تلوار اٹھائی۔”
” مجموع الفتاوى ” ( 20 / 395 )
- جس وقت بدعتی اور گمراہ ابن ابو داود کو آدھے دھڑ کا فالج ہوا تو اہل سنت نے خوشی کا اظہار کیا، حتی کہ ابن شراعہ بصری نے اس بارے میں اشعار بھی پڑھے تھے:
أفَلَتْ نُجُومُ سُعودِك ابنَ دُوَادِ … وَبَدتْ نُحُوسُكَ في جميع إيَادِ
ابن داود تمہاری بلندی کا تارہ اب غروب ہو گیا ہے، بلکہ لوگوں میں ہر طرف تمہاری نحوست عیاں ہو چکی ہے۔
فَرِحَتْ بمَصْرَعِكَ البَرِيَّةُ كُلُّها … مَن كَان منها مُوقناً بمعَادِ
تمہارے بستر مرگ پر جانے سے آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی ساری مخلوقات کو خوشی ہوئی۔
لم يَبْقَ منكَ سِوَى خَيَالٍ لامِعٍ … فوق الفِرَاشِ مُمَهَّداً بوِسادِ
اب بستر مرگ پر بھی تیری صرف خام خیالی ہی باقی ہے، جس میں حرارت یا برودت کچھ بھی باقی نہیں ہے۔
وَخَبتْ لَدَى الخلفاء نارٌ بَعْدَمَا … قد كنت تَقْدحُهَا بكُلِّ زِنادِ
حکمرانوں کے ہاں اب تمہاری بھڑکائی ہوئی آگ بجھ جائے گی جسے تو ہر موقع پر بھڑکاتا رہتا تھا۔
” تاريخ بغداد ” از خطیب بغدادی ( 4 / 155 )
- خلال رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
“ابو عبد اللہ یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کہا گیا: ایک شخص ابن ابی داود کے ساتھیوں پر آنے والی آزمائشوں سے خوش ہوتا ہے، تو کیا اسے اس عمل پر گناہ ہوگا؟ تو امام احمد بن حنبل نے کہا: کون ہے جو اس بات پر خوش نہیں ہوتا؟!”
” السنَّۃ ” ( 5 / 121 ) - ابن کثیر رحمہ اللہ سن 568 ہجری میں فوت ہونے والے لوگوں کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
“حسن بن صافی بن بزدن ترکی کا تعلق ان بڑے امیروں میں سے تھا جو کہ ملکی سطح پر اثر و رسوخ رکھتے تھے، تاہم یہ شخص متعصب درجے کا خبیث رافضی تھا، اور رافضیوں کی حد درجہ طرف داری کرتا تھا،یہ رافضی اسی کی ناک تلے پھل پھول رہے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس شخص سے ماہ ذو الحجہ میں نجات دی اور مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا، اسے اسی کے گھر میں دفن کیا گیا جسے بعد میں قریش کے قبرستان میں منتقل کر دیا گیا ، اس پر اللہ کا ہی شکر ہے اور اسی کی تعریف ہے۔
جس وقت وہ مرا تو اہل سنت اس کے مرنے پر بہت زیادہ خوش ہوئے، انہوں نے اعلانیہ طور پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا، سب کے سب مسلمان بلا استثنا اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔” ختم شد
” البداية والنهاية ” ( 12 / 338 ) - خطیب بغدادی رحمہ اللہ عبید اللہ بن عبد اللہ بن الحسین ابو القاسم الحفاف جو کہ ابن نقیب کے نام سے مشہور تھے ان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“میں نے ان سے حدیث لکھی ہے، ان کی سنی ہوئی احادیث بالکل صحیح تھیں، آپ عقیدے میں بہت پختہ تھے، مجھے ان کے بارے میں یہ بات پہنچی کہ جس وقت رافضیوں کا سرغنہ ابن المعلم فوت ہوا تو انہوں نے خصوصی طو ر پر مبارکبادی کی محفل کا انعقاد کیا، اور کہنے لگے: اب مجھے کوئی پروا نہیں ہے کہ مجھے جس وقت مرضی موت آ جائے؛ کیونکہ میں نے ابن المعلم رافضی کو مرتے دیکھ لیا ہے۔”
” تاريخ بغداد ” ( 10 / 382 )
مندرجہ بالا دلائل اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں جن سے اسلام دشمن اور اسلام مخالف افراد ، زندیق، سخت گیر بدعتی ، فاجروں اور بدمعاشوں کی موت پر خوشی کے اظہار کا جواز ملتا ہے، بلکہ اہل سنت تو ایسے لوگوں پر بیماری، جیل، ملک بدری اور شکست خوردی کی صورت میں ان پر اترنے والی مصیبتوں اور تکالیف پر بھی خوش ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب