اس بات کی کیا دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو فرمائی ہے؟
کیا اللہ تعالی نے ہمارے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو فرمائی ہے؟
سوال: 156077
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں رسولوں کی طرف وحی کرنے کے انداز ذکر کیے ہیں، ان میں براہِ راست لیکن پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کا بھی ایک انداز ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ)
ترجمہ: کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے روبرو بات چیت کرے۔ البتہ یہ وحی کی صورت میں یا پردے کے پیچھے سے ہو سکتی ہے یا وہ کوئی فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے وہ یقیناً عالی شان اور حکمت والا ہے۔ [الشورى:51]
اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا کہ در پردہ گفتگو بھی نبیوں کیلیے ایک بہت ہی عظیم مرتبہ ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ )
ترجمہ: یہ رسول [جو بھیجے گئے] ہم نے انہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا، اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے۔ [البقرة:253]
اور جن انبیائے کرام سے اللہ تعالی نے گفتگو فرمائی ان میں درج ذیل انبیائے کرام شامل ہیں:
1- آدم علیہ السلام
ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: "یا رسول اللہ! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں ، آپ سے اللہ تعالی نے براہ راست گفتگو فرمائی تھی) تو اس شخص نے کہا: "آدم اور نوح علیہ السلام کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیس صدیاں)
اس روایت کو ابن حبان نے اپنی کتاب "صحیح ابن حبان" (14/69) میں روایت کیا ہے اور اس کتاب کے محقق شعیب ارناؤط نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
2- موسی علیہ السلام
آپ کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا )
ترجمہ: اور اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے خود بول کر کلام فرمایا[النساء:164 ]
اسی طرح فرمایا:
( وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ)
ترجمہ: اور جس وقت موسی [علیہ السلام ]ہمارے مقررہ وقت پر آئے اور اس کے پروردگار نے ان سے کلام کیا۔[الأعراف:143 ]
ایک اور مقام پر فرمایا:
( يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاتِي وَبِكَلامِي)
ترجمہ: اے موسی! میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے لوگوں سے تمہیں ممتاز کر دیا ہے۔[لأعراف:144]
3- محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اللہ تعالی کی گفتگو سفرِ معراج کے موقع پر ثابت ہے، اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"[آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں] میں واپس پر موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا: "آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے روزانہ پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے)
موسی علیہ السلام نے کہا: "یقیناً آپ کی امت روزانہ پچاس نمازوں کی استطاعت نہیں رکھتی، اللہ کی قسم! میں نے آپ سے پہلے لوگوں کو آزمایا ہے اور بنی اسرائیل پر میں نے بہت ہی محنت کی تھی، اس لیے آپ اللہ تعالی کے پاس واپس جائیں اور ان سے اپنی امت کیلئے تخفیف کی درخواست کریں"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں واپس گیا تو اللہ تعالی نے دس نمازیں کم کر دیں، پھر جب دوبارہ موسی علیہ السلام کے پاس گیا تو انہوں نے پھر وہ بات کی کہ: ۔۔۔ " آپ اللہ تعالی کے پاس واپس جائیں اور ان سے اپنی امت کیلئے تخفیف کی درخواست کریں " تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اللہ تعالی سے اتنا مانگ لیا ہے کہ اب مجھے حیا آنے لگی ہے، لیکن میں اب راضی ہوں اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کرتا ہوں)
بخاری: ( 3674 ) و مسلم: ( 162 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث سب سے قوی ترین دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات براہِ راست گفتگو فرمائی"
" فتح الباری " ( 7 / 216 )
نیز ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی : ( مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ)
ترجمہ: ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا [البقرة:253]
اس میں موسی علیہ السلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آدم علیہ السلام شامل ہیں جیسے کہ [آدم علیہ السلام]بارے میں صحیح ابن حبان میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے۔
نیز فرمانِ باری تعالی ہے: (وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ )
ترجمہ: اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے۔ [البقرة:253] جیسے کہ حدیث معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیائے کرام سے آسمانوں میں دیکھا اور ہر ایک کا مقام و مرتبہ اللہ تعالی کے ہاں درجات کے مطابق دوسرے نبی سے مختلف تھا۔
" تفسیر ابن کثیر " ( 1 / 670 )
نیز جس حدیث کی طرف ابن کثیر رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ وہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہ حدیث: " صحیح ابن حبان " ( 2 / 76 ) میں ہے اور اس کے بارے میں شیخ شعیب أرنؤوط کہتے ہیں: اس کی سند سخت ضعیف ہے۔
تاہم ہماری ذکر کردہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث اس کی جگہ کافی ہے۔
دوم:
صرف موسی علیہ السلام کو "کلیم اللہ" سے ملقب کرنے کی کیا وجہ ہے؟
اس بارے میں شیخ عبد الرحمن المحمود حفطہ اللہ کہتے ہیں:
"صرف موسی علیہ السلام کو "کلیم اللہ" کہا جاتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آدم علیہ السلام سے بھی گفتگو فرمائی ہے، اس بارے میں یقینی بات تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے ، تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ موسی علیہ السلام کیساتھ اللہ تعالی نے زمین پر ان کی طبعی حالت میں گفتگو فرمائی ہے، جبکہ آدم علیہ السلام سے جب اللہ تعالی نے گفتگو فرمائی تو وہ آسمانوں پر تھے، اسی طرح جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو فرمائی تو اس وقت آپ کو بھی جسم و روح کیساتھ آسمان پر لے جایا گیا، لیکن موسی علیہ السلام سے اللہ تعالی نے گفتگو زمین پر ہی فرمائی، اس لحاظ سے موسی علیہ السلام کی یہ واضح خصوصیت ہے، اللہ تعالی ان پر اور ہمارے نبی پر بہترین درود و سلام نازل فرمائے"
ماخوذ از: " تيسير لمعة الاعتقاد " ( ص 152 ) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب