اس شخص كے متعلق كيا حكم ہے جو ابتدائى رؤيت كے مطابق روزہ نہ ركھے بلكہ خود چاند ديكھے تو روزہ ركھتا اور اس كى دليل يہ ديتا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" چاند ديكھ كر روزہ ركھو، اور چاند ديكھ كر ہى عيد مناؤ "
كيا اس كا اس حديث سے يہ استدلال صحيح ہے ؟
كيا ہر مسلمان شخص كے ليے چاند ديكھنا شرط ہے ؟
سوال: 1584
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب چاند كى رؤيت ثابت ہو جائے چاہے ايك ہى عادل مسلمان كى گواہى سے رؤيت ثابت ہو تو روزہ ركھنا فرض ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك اعرابى كے چاند ديكھنے كى گواہى پر روزہ ركھنے كا حكم ديا تھا.
رہا اس حديث " چاند ديكھ كر روزہ ركھو، اور چاند ديكھ كر عيد الفطر كرو "
سے يہ استدلال كرنا كہ ہر شخص بعينيہ چاند ديكھ كر روزہ ركھے تو يہ استدلال صحيح نہيں، كيونكہ حديث ميں عمومى رؤيت ثابت ہونے پر خطاب عام ہے، چاہے ايك ہى گواہى سے رؤيت ہلال ثابت ہو جائے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 94 ).
رؤيت ہلال ميں ايك ہى ثقہ اور عادل مسلمان شخص كى گواہى پر روزہ ركھنا فرض ہونے كى دليل يہ بھى ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" لوگ چاند ديكھنے كے ليے جمع ہوئے تو ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بتايا كہ ميں نے چاند ديكھا ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود روزہ ركھا اور لوگوں كو روزہ ركھنے كا حكم ديا"
سنن ابو داود كتاب الصوم باب شھادۃ الواحد على رؤيۃ الھلال رمضان.
اور بعض بدعتى قسم كے لوگ سب مسلمانوں سے روزہ ركھنے ميں پيچھے اس ليے رہتے ہيں كہ ان كا اعتقاد ہوتا ہے كہ انسان جب خود چاند ديكھے تو اس پر روزہ فرض ہوتا ہے، حالانكہ احاديث ان كا رد كرتى ہيں، اور ان كا يہ اعتقاد باطل ہے.
اور پھر اگر ان كا اعتقاد صحيح بھى مان ليا جائے تو پھر كمزور نظر والا شخص كيا كرے اور وہ كس طرح روزہ ركھے گا؟
معاملہ بالكل ايسا ہى جيسا كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے:
آنكھيں اندھى نہيں بلكہ ان كے سينوں ميں پائے جانے والے دل اندھے ہو چكے ہيں الحج ( 46 ).
اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى ہدايت نصيب كرنے والا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد