ہم سوال نمبر (131627 ) كے جواب ميں قبر كے ميت كو دبانے كے مسئلہ پر كلام كر چكے ہيں، وہاں ہم نے اس مسئلہ كے متعلق وارد شدہ احاديث اور اس كے مسائل بيان كيے ہيں اس ليے آپ اس كا مطالعہ كر ليں.
وہاں ہم نے يہاں كيے گئے سوال كا جواب نہيں ديا كہ آيا قبر كا يہ دبانا انبياء كو بھى شامل ہے يا نہيں ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
بخصوص اس مسئلہ كے نصوص وحيہ ميں كوئى ايسا ثبوت نہيں ملتا، ليكن ہم نے بہت سارے علماء كرام كى كلام كا مطالعہ ضرور كيا ہے جو انبياء كو اس سے استثناء قرار ديتے ہيں، يہ قول اس وقت اور بھى متعين ہو جائيگا كہ:
ميت كے گناہوں كے اعتبار سے قبر كا دبانا بھى مختلف ہو گا؛ چنانچہ انبياء كرام تو كبيرہ گناہوں سے معصوم ہيں، اور اسى طرح صغيرہ گناہ پر اصرار سے بھى معصوم ہيں، اس ليے قبر كا يہ دبانا اور قبر ميں سوال و جواب سے انبياء مستثنى ہيں.
امام سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” يحيى عليہ السلام كو قبر كے دبانے كے متعلق ايك حديث بيان كى جاتى ہے، اور يہ حديث بالكل ہى انتہائى منكر ہے، اور اس كى سند معضل ہے، يہ معروف ہے كہ انبياء عليھم السلام كو قبر نہيں دباتى ” انتہى
ديكھيں: شرح الصدور بشرح حال الموتى و القبور ( 114 ).
اور امام مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” حديث سے معلوم ہوتا ہے كہ قبر كے دبانے سے كوئى شخص بھى نجات نہيں پا سكتا، نيك اور غير نيك سب برابر ہيں، ليكن جيسا كہ مؤلف ” سيوطى ” نے ” الخصائص ” ميں بيان كيا ہے كہ اس سے انبياء عليھم السلام كو خاص كيا گيا ہے ” انتہى
ماخوذ از: فيض القدير ( 5 / 424 ).
اور مناوى رحمہ اللہ ايك دوسرے مقام پر لكھتے ہيں:
” ليكن حكيم ترمذى نے اس سےانبياءاور اولياء كو مستثنى كيا ہے؛ ان كا ميلان اس طرف ہے كہ انہيں قبر نہيں دباتى اور نہ ہى ان سے سوال و جواب ہوتے ہيں ”
ليكن ميں كہتا ہوں كہ: انبياء كو مستثنى كرنا تو واضح ہے ليكن اولياء كو مستثنى قرار دينا صحيح نہيں لگتا، كيا آپ سعد بن معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كے مقام و مرتبہ كو نہيں ديكھتے ليكن اس كے باوجود قبر نے انہيں دبايا ” انتہى
ديكھيں: فيض القدير ( 5 / 398 ).
اور شيخ احمد نفراوى مالكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” انبياء عليھم السلام كے متعلق بعض علماء كا كہنا ہے كہ يہ معلوم نہيں كہ انبياء كو بھى قبر دباتى ہے، اور ان سے سوال ہوتا ہے، بلكہ ان كى عصمت كى بنا پر وہ اس سے مستثنى ہيں ” انتہى
ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 2 / 688 ).
شافعى المسلك سليمان البجيرمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قبر كا دبانا ہر ايك ميت كو عام ہے چاہے وہ مكلف نہ بھى ہو تو بھى قبر اسے دبائى گى، قبر كے ميت كو دبانے سے صرف انبياء اور فاطمہ بنت اسد بچے ہيں ” انتہى
ديكھيں: تحفۃ الحبيب على شرخ الخطيب ( 2 / 586 ).
اور فاطمہ بنت قيس كا استثناء سنت نبويہ كى كسى حديث سے ثابت نہيں، بلكہ ايك موضوع يا شديد ضعيف حديث پر اعتماد كيا گيا جسے ابن شبہ نے اپنى كتاب ” تاريخ المدينۃ ” ( 1 / 124 ) ميں ذكر كيا ہے.
اس حديث كى سند ميں كئى مجھول الحال راوى ہيں اور اس كى سند ميں عبد اللہ بن جعفر بن المسور بن مخرمہ راوى بھى ہے جس كے بارہ ميں ابن حبان كا قول ہے كہ: احاديث بيان كرنے ميں بہت زيادہ وہم كا شكار تھا، حتى كہ ثقات سے وہ كچھ روايت كيا جاتا ہے جو اثبات كى احاديث كے مشابہ بھى نہيں، اس ليے جب كوئى ايسا شخص سنے جو فن حديث ركھتا ہے تو وہ گواہى ديگا كہ يہ الٹ ہے، اس ليے اسے ترك كرنا مستحق ٹھرا ” انتہى
ديكھيں: المجروحين ( 2 / 27 ).
اور شيخ عبد العزيز الراجحى حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” انبياء كے بارہ ميں ہميں كوئى علم نہيں كہ قبر انہيں بھى دباتى ہے ” انتہى
ديكھيں: شرح العقيدۃ الطحاويۃ ( 307 ) مكتبہ شاملہ كے حساب سے نمبر.
ظاہر يہ ہوا كہ قبر كا دبايا جانا شھداء اور صالحين اور اولياء سب كو شامل ہے، ليكن صرف انبياء كو شامل نہيں.
واللہ اعلم .