مجھے ایک عیسائی نے اپنا اعتراض پیش کیا ، میں اس اعتراض کو پیش کر کے آپ سے جواب چاہتا ہوں، تا کہ میں اس عیسائی کو یہ جواب بھیج سکوں، اس کا کہنا ہے کہ قرآن کریم میں ایک سورت البقرۃ کے نام سے ہے اس میں لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے الفاظ ہیں کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں دیگر متعدد جگہوں پر یہ چیز ملتی ہے کہ قرآن کریم کی آیات مسلمانوں کو مشرکوں کے قتل پر ابھارتا ہے جیسے کہ : اُقْتُلُوْا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ یعنی جہاں بھی مشرکوں کو پاؤ تو انہیں وہیں قتل کر دو۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں جو مخالف مذہب رکھنے والوں کو قتل کرنے کا حکم دیتی ہیں، تو کیا یہ آپس میں تناقض نہیں ہے؟
ایک عیسائی کا دعوی ہے کہ قرآن کریم کی کچھ آیات { لا إكراه في الدين} قرآنی آیت سے متصادم ہیں
سوال: 165408
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ کا شکر ہے کہ الحمدللہ دین میں زبردستی نہیں، اور مشرکوں کو قتل کرنے کے حکم میں کوئی تصادم نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں مشرکوں کو قتل کرنے کا حکم اس لیے نہیں ہے کہ انہیں زبردستی دین اسلام میں داخل کیا جائے، اگر ایسا ہی ہوتا تو یہودیوں اور عیسائیوں سمیت دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام کے غالب آنے پر اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہوتا، انہیں جبرا اسلام قبول کروایا جاتا، اور یہ بات تاریخ کا تھوڑا بہت مطالعہ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا؛ چنانچہ یہودی اور عیسائی اسلامی سلطنت کے تحت زندگی گزارتے چلے آئے ہیں، انہیں اسلامی سلطنت میں بھی دینی آزادی حاصل رہی ہے۔
تو مشرکوں سے قتال کرنے سے دو چیزیں مراد ہیں:
پہلی چیز: ایسے مشرکوں کو قتل کیا جائے جو مسلم خطے میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش کریں، مسلم خطوں میں کفر اور کافروں کے اثر و رسوخ کو پھیلانا چاہیں، یہ اسلامی خطوں کے دفاع کا جہاد ہے۔ پوری تاریخ میں دفاعی جہاد ہر سلطنت میں موجود رہا ہے چاہے اس کا مذہب کوئی بھی کیوں نہ ہو، کیونکہ اگر دفاعی جہاد نہ ہو تو کوئی بھی قوم اور سلطنت قائم ہی نہیں رہ سکتی تھی۔
دوسری چیز: اللہ کے دین سے روکنے والوں کے خلاف جہاد، مسلمانوں کو اپنے رب کے دین کی دعوت دینے سے روکنے والوں کے خلاف جہاد، کسی بھی انسان کو نور ہدایت حاصل کرنے میں رکاوٹ بننے والوں کے خلاف جہاد، یا کسی غیر مسلم کو اس دین کا تعارف حاصل کرنے سے روکنے یا اسلام قبول کرنے میں حائل بننے پر جہاد ، تو یہ ہجومی جہاد ہے، اور دونوں ہی شرعی طور پر جائز ہیں۔
جیسے کہ ابن العربی رحمہ اللہ مالکی فقیہ کہتے ہیں:
"فرمان باری تعالی: فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ یعنی مشرکوں کو قتل کرو، یہ آیت ہر مشرک کے بارے میں ہے، لیکن حدیث نے ان میں سے عورتوں، بچوں، راہبوں اور عوام الناس [ایسے لوگ جن کی اپنی ذاتی کوئی رائے نہ ہو، وہ دوسروں کے پیچھے چلنے والے ہوں] کو خاص کیا ہے، جیسے کہ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے، چنانچہ اس آیت میں وہ تمام لوگ آئیں گے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں، یا مسلمانوں میں فساد اور اذیت پہنچانے کے لیے تیار ہوں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ آیت سے مراد ایسے مشرک ہیں جو تم سے جنگ لڑتے ہیں۔" ختم شد
" أحكام القرآن " ( 4 / 177 )
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے خلاف جہاد کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اور محمد اللہ تعالی کے رسول ہیں، وہ نماز قائم کرنے لگیں، زکاۃ ادا کرنے لگیں) اس کا مطلب یہ ہے کہ: ایسے مشرکوں کے خلاف جہاد کیا جائے جو مسلمانوں کے خلاف مسلح کاروائی کر رہے ہیں، یہاں پر ایسے ذمیوں اور معاہدین کے خلاف جہاد کا حکم نہیں ہے جن کے معاہدے کو پورا کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 19 / 20 )
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
"قتال ایسے شخص کے ساتھ ہو گا جو دین الہی کے اظہار پر ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ترجمہ: اللہ کی راہ میں ایسے لوگوں کے خلاف قتال کرو جو تمہارے خلاف جنگ کرتے ہیں، اور زیادتی مت کرو، یقیناً اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔ [البقرۃ: 190] " ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 28 / 354 )
اس کی دلیل سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : (جس وقت رسول اللہ کسی لشکر یا سریہ کا امیر بناتے تو اسے خصوصی طور پر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں تقوی الہی اپنانے اور خیر کی نصیحت کرتے ۔۔۔ پھر فرماتے: جب تمہاری مشرک دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دو: وہ ان تین میں سے کسی پر آمادہ ہو جائیں تو اسے قبول کر لو، اور ان کے خلاف ہتھیار مت اٹھاؤ: انہیں اسلام کی دعوت دو اگر وہ آمادہ ہو جائیں تو تم اسے قبول کر لو اور ان کے خلاف ہتھیار مت اٹھاؤ۔ پھر ان سے اپنے علاقے سے مسلمانوں کے علاقے میں آنے کا مطالبہ کرو ۔۔۔ اگر وہ اسلام قبول کرنے سے رک جائیں تو ان سے جزیہ کا مطالبہ کرو، اگر وہ جزیہ دینے پر راضی ہو جائیں تو تم ان کی بات مان لو اور ان کے خلاف ہتھیار مت اٹھاؤ، اور اگر جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو اللہ سے مدد حاصل کرو اور ان کے خلاف قتال کرو۔۔۔)
مسلم: (1731)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں متعدد فوائد ہیں: جزیہ ہر کافر سے وصول کیا جائے گا۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کافر کو یہاں مستثنی نہیں قرار دیا، یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص ہے؛ کیونکہ حدیث کے الفاظ صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بھیجے گئے سرایا اور لشکر اکثر و بیشتر عربستان کے بت پرستوں کے خلاف قتال کے لیے بھیجے گئے تھے۔ یہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن کریم اس جزیہ کو اہل کتاب کے ساتھ خاص کرنے پر دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے تو اہل کتاب کا صراحت سے ذکر کیا ہے کہ ان سے اس وقت تک قتال کرو یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں۔ اور یہاں اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا ہے کہ مشرکوں کے خلاف جہاد کریں یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں۔ لہذا قرآن کریم کی رو سے اہل کتاب سے جزیہ لیا جائے گا اور عمومی طور پر دیگر کافروں سے جزیہ حدیث کی رو سے لیا جائے گا، ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجوسیوں سے جزیہ لیا ہے جو کہ آتش پرست تھے، لہذا آتش پرستوں اور بت پرستوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔" ختم شد
" أحكام أهل الذمة " ( 1 / 89 )
یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس شخص کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت مل جائے اور اس سے اسی بنیاد پر جزیہ بھی لیا جائے تو اب اس کے خلاف قتال نہیں ہو سکتا، یا اسے دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (27180 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح جہاد کی حکمت جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (34647 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
نیز جہاد کا حکم اور جہاد کی اقسام جاننے کے لیے سوال نمبر: (20214 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات