كيا ماہ ميں تين روزے اور عرفہ كا روزہ ايك نيت ميں جمع كرنا ممكن ہے، اور كيا اس سے ہميں ڈبل اجر ملے گا ؟
ايك روزے ميں دو نيتيں جمع كرنا، اور عبادات كا ايك دوسرے ميں داخل ہونے كا مسئلہ
سوال: 1693
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تداخل عبادات كى دو قسميں ہيں:
ايك قسم تو صحيح نہيں:
وہ يہ كہ جب عبادات بنفسہ مقصور ہو يا كسى دوسرى كى تابع ہو، تو اس ميں عبادات كا دوسرى عبادت ميں داخل ہونا ممكن نہيں.
اس كى مثال اس طرح ہے كہ: ايك انسان كى فجر كى سنتين رہ گئيں حتى كہ سورج طلوع ہو گيا، اور اشراق كا وقت ہو گيا تو يہاں فجر كى سنتيں اشراق سے كفائت نہيں كرينگى، اور نہ ہى اشراق كى دو ركعتيں فجر كى دو ركعتوں سے كفائت كرينگى، اور ان ميں جمع بھى نہيں كيا جا سكتا، كيونكہ فجر كى سنتيں مستقل حيثيت ركھتى ہيں، لہذا ايك دوسرى سے كفائت نہيں كريگى.
اور اسى طرح اگر عبادت كسى دوسرى كے تابع ہو تو وہ بھى دوسرى ميں داخل نہيں ہو گى، اگر كوئى انسان يہ كہے كہ ميں فجر كى فرضى اور سنت دونوں كى نيت كرتا ہوں، تو ہم كہيں گے يہ صحيح نہيں، كيونكہ سنتيں نماز كے تابع ہيں لھذا اس سے كفائت نہيں كرينگى.
دوسرى قسم:
يہ كہ عبادت كا مقصد صرف فعل ہو، اور فى نفسہ عبادت مقصود نہ ہو تو يہ ممكن ہے كہ اس ميں تداخل ہو، اس كى مثال يہ ہے كہ: ايك شخص مسجد ميں داخل ہوا اور لوگ فجر كى نماز ادا كر رہے تھے، اور يہ معلوم ہے كہ جب كوئى مسجد ميں داخل ہو تو بيٹھنے سے پہلے دو ركعت ضرورى پڑھنى ہيں، لہذا جب يہ امام كے ساتھ فرضى نماز ميں داخل ہو جاتا ہے تو يہ دو ركعات سے كفائت كر جائے گى، ليكن يہ كيوں؟
كيونكہ مسجد ميں داخل ہونے كے بعد دو ركعت نماز پڑھنا مقصود تھا اور اسى طرح اگر كوئى انسان چاشت كےوقت مسجد ميں داخل ہوا اور چاشت كى نماز دو ركعت ادا كى تو يہ تحيۃ المسجد كے ليے بھى كفائت كر جائيگى، اور اگر وہ دونوں كى نيت كرے تو يہ زيادہ كامل ہے، تو تداخل عبادات كا يہ ضابطہ ہے.
اور روزہ بھى اسى سے ہے، مثلا يوم عرفہ كا روزہ مقصود يہ ہے كہ آپ اس دن روزہ سے ہوں، چاہے ہرماہ كے تين روزں كى نيت سے ہو يا آپ نے يوم عرفہ كے روزہ كى نيت كى ہو، ليكن اگر آپ يوم عرفہ كے روزہ كى نيت كرتے ہيں تو يہ ماہ ميں تين روزوں سے كفائت نہيں كرے گا، اور اگر آپ ان تين ايام ميں سے كسى ايك كى نيت كريں تو يہ يوم عرفہ سے كفائت كر جائے گا، اوراگر آپ دونوں كى نيت كريں تو يہ افضل ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
ماخوذ از: لقاء الباب المفتوح لابن عثيمين ( 51 / 19 )