ابن قيم رحمہ اللہ نے الجواب الكافى ميں بيان كيا ہے كہ: ” امام احمد رحمہ اللہ نے ذكر كيا ہے كہ جلولاء كى جنگ ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے حصہ ميں ايك لونڈى آئى جس كى گردن چاندى كے لوٹے جيسى تھى، عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
ميں اس سے صبر نہ كر سكا اور لوگوں كے سامنے ہى اس كا بوسہ لے ليا ”
ليكن آپ نے سوال نمبر ( 103960 ) كے جواب ميں بيان كيا ہے كہ ايك بيوى كا دوسرى بيوى كے سامنے ايسا كرنا حرام ہے، تو پھر لوگوں كے سامنے كيسا ہوگا ؟
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا لوگوں كے
سوال: 170894
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مذكورہ قصہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنى كتاب ” العلل و معرفۃ الرجال ( 2 / 260 ) ميں بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
حدثنا ہشيم على بن زيد عن ايوب اللخمى عن ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما:
” جلولاء كے دن ميرے حصہ ميں ايك لونڈى آئى اس كى گردن گويا كہ چاندى كا لوٹا تھى، وہ بيان كرتے ہيں ميں اس پر صبر نہ كر سكا اور اٹھ كر لوگوں كے سامنے ہى اس كا بوسہ لے ليا ”
پھر اس كے بعد عبد اللہ بن امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ميں نے اپنے والد سے سنا كہ وہ كہہ رہے تھے: ہشيم نے على بن زيد سے سماعت ہى نہيں كى ” انتہى
اس روايت كى علت يہ ہے كہ ہشيم نے يہ قصہ اس كے راوى سے سنا ہى نہيں يعنى على بن زيد سے ہشام كا سماع نہيں ہے، اور پھر ہشيم خود بھى مدلس راوى ہے.
ليكن يہ واقعہ اور بھى كئى ايك نے حماد بن سلمہ عن على بن زيد عن ايوب اللخمى سے بھى اسى طرح بيان كيا ہے.
اسے ابن ابى شيبہ نے ( 3 / 516 ) حديث نمبر ( 16656 ) ميں اور امام بخارى نے التاريخ الكبير ( 1 / 419 ) ميں نقل كيا ہے.
اور اس كى بھى سند ضعيف ہے، على بن زيد بن جدعان ضعيف راوى ہے، اور اس قصہ كا دارومدار بھى على بن زيد پر ہے.
اور ايوب اللخمى تابعى ہيں ان كا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے سماع ثابت ہے، اور ابن حبان نے اسے ثقات ميں ذكر كيا ہے، ليكن ان كے علاوہ كسى نے اسے ثقہ نہيں كہا.
ديكھيں: الداء و الدواء ابن قيم طبع عالم الفوائد تعليق المحقق ( 558 – 559 ).
دوم:
اگر بالفرض يہ قصہ ثابت بھى ہو جائے تو يہ انسان كے ضعف موقف كو بيان كر رہا ہے كہ انسان پر اس كا نفس كتنا غالب آ جاتا ہے، اور يہ اس شخص كى حالت كے مشابہ ہے جس كے پاس ايك حسين و جميل عورت لائى جائے، اور وہ ديكھتے ہى اس پر فريفتہ ہو جائے.
يہ تو سب كو معلوم ہے كہ اتباع تو عام طريقہ كى ہوتى ہے نا كہ كسى كمزور لحظہ كے وقت كى جس ميں انسان اپنے آپ كا مالك نہ رہے، اور اس پر نفس غالب آ جائے، يہ ايسى چيز ہے جس سے عام لوگ بچ نہيں سكتى.
شيخ برہان الدين ابراہيم بن مفلح الحنبلى كہتے ہيں:
” كيا قيدى لونڈى سے فرج كے علاوہ استمتاع جائز ہے ؟
اس ميں دو روايتيں ہيں:
پہلى روايت:
خرقى كے ظاہر قول كے مطابق شہوت كے ساتھ اسے ديكھنا اور مباشرت كرنا حرام ہے ” الرعايۃ ” اور ” الفروع ” ميں اسے پيش كيا گيا ہے، اس كى شرح ميں كہتے ہيں: يہ امام احمد سے ظاہر ہے..
دوسرى روايت:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل كى بنا پر حرام نہيں.
ليكن پہلى روايت صحيح ہے:
المغنى ميں ہے: ابن عمر كى روايت ميں كوئى دليل نہيں كيونكہ اسے انہوں نے اپنے عيب كے طور پر ذكر كيا ہے .. ” انتہى
ديكھيں: المبدع لابن مفلح ( 8 / 132 ) اور ديكھيں: المغنى ( 8 / 149 ).
مزيد آپ سوال نمبر (72220 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
فائدہ:
ابن منير رحمہ اللہ نے اپنى سند كے ساتھ اس واقعہ كو ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:
” ميرى رائے كے مطابق تو ابن منذر كے علاوہ كسى نے اسے روايت كيا، انہوں نے اسے اپنى كتاب ” اشراف ” ميں اسے بغير سند كے ساتھ روايت كرتے ہوئے كہا ہے:
ہم نے ابن عمر سے روايت كيا ہے كہ: انہوں نے جلولاء كے دن اپنے حصہ ميں آنے والى لونڈى كا بوسہ ليا ”
اور اپنى كتاب ” الاوسط ” ميں اسے سند كے ساتھ بيان كيا ہے، ميں نے بھى اسى سے نقل كيا ہے اور اس كتاب كى تبييض كرتے ہوئے بيس برس بعد ہى حاصل كر سكا ہوں، الحمد للہ فائدہ ہوا ” انتہى
ديكھيں: البدر المنير ( 8 / 262 ).
اس عالم كو ديكھيں كہ اس كا نفس فائدہ كے ساتھ كيسا لگا كہ اس نے بيس برس بعد اسے حاصل كر ہى ليا!!
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات